السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قبرستان مسمار کرکے اس میں کھیتی باڑی کرنا ،فروٹ کے درخت لگانا یا مکان بنانا کیسا ہے؟ اس کھیت کی آمدن اور مکان میں قرآن پڑھنے یا نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟(محمود الحسن سلیم، سکردو، بلتستان) (۱۱ جون ۱۹۹۹ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل اسلام کے قبرستان کو مسمار کرکے اس کی جگہ کھیتی باڑی یا فروٹ کے درخت لگانا یا مکان تعمیر کرنا ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں مسلمانوں کی توہین اور اکرامِ مسلم کے منافی فعل ہے۔ ہاں البتہ مشرکین کی قبروں کو اکھاڑا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ باب منعقد کیا ہے:
’بَابٌ:هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِکِی الجَاهِلِیَّةِ، وَیُتَّخَذُ مَکَانُهَا مَسَاجِدَ‘
’’جس سے مقصود یہ ہے کہ مشرکوں کی قبریں مسمارکرکے وہاں مسجد تعمیر کرنا جائز ہے۔‘‘
پھر اس واقعہ سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ مسجد نبوی کو مشرکوں کی قبور کی جگہ بنایا گیا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ أَیْ دُونَ غَیْرِهَا مِنْ قُبُورِ الْأَنْبِیَاء ِوَأَتْبَاعِهِمْ لِمَا فِی ذَلِكَ مِنَ الْإِهَانَةِ لَهُمْ بِخِلَافِ الْمُشْرِکِینَ فَإِنَّهُمْ لَا حُرْمَةَ لَهُمْ ۔‘ (۲۴/۱ھ)
’’یعنی مشرکوں کی قبروں کو مسمار کرنا جائز ہے اس لیے کہ ان کی کوئی عزت نہیں لیکن انبیاء علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کی قبریں مسمار کرنا ناجائز ہے کیونکہ اس میں ان کی توہین ہے۔ حنفی فقہ میں ہے:
’سئل القاضی الامام شمس الائمة محمود الاوزجندی عن المقبرة فی القری اذا اندرست و لم یبق فیها اثر الموتی لا العظم و لا غیره هل یجوز زرعها قابل واستغلالها قال لا ولها کم المقبرة کذا فی المحیظ فلو کان فیها حشیش یحش و یرسل الدوابُّ فیها کذا فی البحر الرائق ۔(عالمگیری) ۔‘
ماحصل اس کا یہ ہے کہ بے نشان قبرستان میں کھیتی باڑی کرنا ناجائز ہے کیونکہ یہ قبرستان کے حکم میں ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ایسی جگہ کو اپنی اصلی حالت میں بدل دیا جائے اور اگر کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو سکے پھر اس کی آمدنی اوقاف میں صرف کردی جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب