اِسْبَاغُ الْوُضُوْء سے کیا مراد ہے؟مولانا عبداللہ مرحوم نے اپنی ایک تقریر میں بخاری کے حوالے سیعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اسباغ الوضوء‘‘ کا معنی (اعضاء وضوء کا صاف کرنا ہے) ( بخاری،کتاب الوضوء، باب اسباغ الوضوء)
یعنی اگر پاؤں کی میل کچیل صاف نہ ہو تو چاہے سات مرتبہ دھونا پڑے دھو لیں۔ جبکہ دوسری حدیث میں ہے : اسراف سے بچو خواہ تم جاری نہر پر ہو۔ قرآن و سنت کی رو سے واضح کریں؟
________________________________________________________________
اسباغ وضوء کا مطب وضوء مکمل کرنا پورا کرنا ہی ہے ۔ جس جگہ کا دھونا فرض ہے وہ خشک نہ رہے۔ دو دفعہ دھونا تین دفعہ دھونا بھی اسباغ وضوء میں داخل ہے البتہ تین دفعہ سے زیادہ دھونا اسباغ وضوء میں شامل نہیں کیونکہ اسباغ وضوء ماموربہ ہے۔
اَسْبِغُو الوُضُوء
جبکہ تین دفعہ سے زیادہ دھونا إساءة، تعدی اور ظلم ہے ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے:
عَنْ عَمْرِ وبْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْه عَنْ جَدِّه قَالَ : جَاء أَعْرَابِیُّ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ یَسْاَله عَنِ الْوُضُوء فَاَرَاہُ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، ثُمَّ قَالَ : ھٰکَذَا الوُضُوْء ، فَمَنْ زَادَ عَلَی ھٰذَا فَقَدْ أَسَاء ، وَتَعَدّٰی وَ ظَلَمَ
ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، وضوء کی کیفیت دریافت کی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اعضاء کا تین تین بار دھونا دکھایا اور فرمایا اس طرح ہے(کامل) وضوء، پھر جو شخص اس پر (تین تین بار دھونے پر) زیادہ کرے پس تحقیق اس نے بُرا کیا اور زیادتی کی اور ظلم کیا۔ (نسائي: 1/ 88، ابن ماجه: 422، ابوداؤد: 135) باقی« وإن کنت علی نہر جار » والی بوجہ ابن لہیہ کمزور ہے۔