سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(145) کسی عزیز کے فوت ہونے پر تین دن تک کھانا کھلانا

  • 25260
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 668

سوال

(145) کسی عزیز کے فوت ہونے پر تین دن تک کھانا کھلانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ کسی کے فوت ہو جانے پر تین دن تک تمام رشتہ داروں کو جو تعزیت کے لیے آئے ہوتے ہیں، کھانا دیتے ہیں، صرف اس لیے کہ یہ خاندان میں رسم ہے کہ جب کوئی فوت ہو جائے تو تین دن تک خاندان والے باری باری میت والے گھر کو اور تمام رشتہ داروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ پھر اس میں یہ خیال بھی رکھا جاتا ہے کہ صرف مرغی ہی پکے۔ کھانے کے بعد چائے بھی ضروری قرار دی جاتی ہے۔ غرض یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ میت والا گھر ہے۔ گھر کی عورت چولہے کے آگے کھڑی ہوتی ہے، کھانے اورچائے کے ساتھ ساتھ دنیا جہان کی باتیںزیر بحث ہوتی ہیں۔ کیا یہ بدعت میں نہیں آتا جب کہ ہمیں نبیﷺ کے زمانے میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان تمام مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ ( طیبہ نسرین، اسلام آباد) (۲۵ جون ۲۰۰۴ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صرف میت کے گھر والوں کو وقتی طور پر کھانا کھلانے کا جواز ہے۔ حدیث میں ہے جب حضرت جعفر کی شہادت کی خبر آئی تو نبیﷺ نے فرمایا:

’اِصْنَعُوْا لِاَلِ جَعْفَرَ طَعَامًا فَقَدْ اَتَاهُمْ مَا یُشْغِلُهُمْ ۔‘( سنن أبی داؤد،بَابُ صَنْعَةِ الطَّعَامِ لِأَهْلِ الْمَیِّتِ، رقم:۳۱۳۲، امام ترمذی (۹۹۸) نے فرمایا حسن صحیحٌ۔ ابن ماجه،رقم۱۶۱۰)

’’سبل السلام‘‘ میں ہے:

’وَ اَمَّا الْاِحْسَانُ اِلَیْهِمْ بِحْمْلِ الطَّعَامِ لَهُمْ فَلَا بَأْسَ بِهٖ وَهُوَ الَّذِیْ اَفَادَهُ حَدِیْثُ جَعْفَرٍ‘ (سبل السلام: ۳۳۱/۳)

’’اہل میت کو بطورِ احسان کھانا پہنچانے میں کوئی حرج نہیں،حدیث جعفر سے یہی بات مستفاد ہے۔‘‘

ہاں البتہ اہل میت کے ساتھ شرکائے تدفین کا کھانا تیار کرنا ناجائز ہے۔حدیث جریر میں عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ  میں ہے:

’کُنَّا نَعُدُّ الْاِجْتِمَاعَ اِلٰی اَهْلِ الْمَیِّتِ وَصُنْعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهٖ مِنَ النِّیَاحَةِ ‘ (مسند احمد(۲۰۴/۲)رقم:۶۹۰۵)

اس کی سند صحیح ہے۔

’’میت کی تدفین کے بعد اہل سنت کے ہاں جمع رہنا اور کھانا تیار کرنا بھی ہمارے(صحابہ کے) نزدیک نوحہ میں سے ہے( جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے۔)‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:179

محدث فتویٰ

تبصرے