السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آدمی کے فوت ہونے سے تقریباً ایک ہفتہ بعد لواحقین، اہل محلہ اور گاؤں کے عام لوگوں کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس کا کیا حکم ہے؟ (محمود الحسن سلیم، سکردو، بلتستان) (۱۱ جون ۱۹۹۹ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کھانے کی ایسی مجالس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ طریقِ کار سنت نبوی سے ثابت نہیں۔ حدیث میں ہے:
’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)
’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘
یاد رہے سوئم، دسواں بیسواں، چالیسواں، چھ ماہی ، برسی وغیرہ سب بدعات کے زمرہ میں شامل ہیں۔
’’شرح المنہاج‘‘ نووی اور حنفی فقہ کی کتابوں میں ہے۔
’اِتِّخَاذ الطَّعَام فِی الْیَوْمِ الثَّالِثِ وَالسَّادِسِ وَالعَاشِرِ وَالعِشْرِیْنَ وَغَیْرهَا بِدْعَةٌ مُسْتَقْبِحَةٌ ‘
یعنی مذکورہ امور قبیح بدعت ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب