السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کے واسطے امانت کے طور پر دفن کردینا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کونسی مجبوریوں کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے ؟اور اس امانت کا زیادہ سے زیادہ وقت کتنا ہو سکتا ہے؟ (رانا محمد اقبال ۔ ساہیوال) (۲۷ جون ۱۹۹۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصل یہ ہے کہ جہاں کوئی فوت ہو وہیں دفن کردیا جائے ۔ ترمذی میں حدیث ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمن کی بعد از وفات نقل مکانی پر فرمایا تھا:
’ وَاللَّهِ لَوْ حَضَرْتُكَ مَا دُفِنْتَ إِلاَّ حَیْثُ مُتَّ‘(سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی الرُّخْصَةِ فِی زِیَارَةِ ،رقم:۱۰۵۵)
ہاں البتہ جگہ کی فضیلت کی بناء پر بعض اہل علم جواز نقل کے قائل ہیں۔ (فتح الباری:۳۰۷/۳)
جب کہ دوسری طرف مؤطا امام مالک رحمہ اللہ کے جَامِعُ الْقَضَاء ِ وَکَرَاهِیَتُهُ میں ہے۔
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان کو لکھا سرزمین پاک شام میں تشریف لے آئیے۔ جواباً انھوں نے کہا: ’’زمین کسی کو پاک اور مقدس نہیں بناتی۔ اصل میں انسان کے اعمال ہی اس کو پاک بناتے ہیں۔ ‘‘
پھر بطورِ امانت کسی کو دفن کرنے کا شریعت میں کوئی تصور نہیں۔ لہٰذا تعیین ایام کا سوال بے محل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب