السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارا بھائی گزشتہ ۲ سال سے لاپتہ تھا۔ جس کی عمر ۳۲ سال تھی۔ اب اچانک پتہ چلا کہ ۲ آدمیوں نے اسے قتل کر ڈالا۔ آدمیوں نے خود پولیس کے روبرو اقرار کیا جب کہ بھائی کی مدفون جگہ سے صرف چند ہڈیاں برآمد ہوئی ہیں۔ اس کے جنازہ اور فاتحہ وغیرہ کے لیے کیا احکام ہیں؟ ابھی تک مدفون کے لیے ہڈیاں بھی نہیں ملیں اور نہ ہی ملنے کی امید ہے۔ مہربانی فرما کر راہنمائی فرمائیں۔ ( ایک سائل) ( ۹ جون ۱۹۹۵ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ مرقومہ میں اگرمیت کی ہڈیاں پولیس سے دستیاب ہو جائیں تو ان پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے پاؤں پر نمازِ جنازہ پڑھی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ملک شام میں ہڈیوں پر جنازہ پڑھا تھا۔ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سروں کا جنازہ پڑھا۔ اسی طرح اہل مکہ نے عبدالرحمن بن عتاب بن اسید کے ہاتھ کا جنازہ۔ صحابہ کرام کی موجودگی میں پڑھا تھا۔ کسی نے انکار نہ کیا۔ (المغنی:۴۰۷/۲ مع الشرح الکبیر)
اور اگر ہڈیاں پولیس سے نہ مل سکیں تو غائبانہ جنازہ ادا کرلیں۔ اس کے لیے قصہ نجاشی سے استدلال ہو سکتا ہے۔ حدیث میں ہے:
’ اِنَّ اَخَاکُم قَد مَاتَ بِغَیرِ اَرضِکُم ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَیهِ ۔‘( مسند ابوداؤد الطیالسی، رقم:۱۱۶۴)،( سنن ابن ماجه،بَابُ مَا جَاء َ فِی الصَّلَاةِ عَلَی النَّجَاشِیِّ، رقم:۱۵۳۶، ۱۵۳۷)
’’یعنی تمہارا بھائی تمہاری غیر زمین میں مر گیا ۔ اٹھو اس کی نمازِ جنازہ پڑھو۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب