السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ آپﷺ نے پڑھی؟ رسول اللہﷺ کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا صحیح ثبوت ملتا ہے۔؟(زاہد لطیف، باغبانپورہ لاہور) (۲۶ جنوری ۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میری نظر سے نہیں گزرا کہ نبیﷺ نے بطورِ خاص کسی شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی ہو جب کہ یہ بات معروف ہے اس عہد میں حروب و قتال میں شرکت غسل مستمر تھا۔ عمومِ بلویٰ(عام پیش آنے والی چیز) کا تقاضا ہے کہ اگر اس کا کوئی اصل ہوتا تو ضرور نقل ہوتا۔ عدمِ نقل عدم ِ وجود کو مستلزم ہے پھر عام حالات میں شہید کے جنازہ میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شہداء پر نمازِ جنازہ نہیں۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور انس رضی اللہ عنہ کی روایات میںتصریح موجود ہے کہ آپﷺ نے شہداء احد کو نہ غسل دیا اور نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی مگر اس کے برعکس کئی ایک روایات میں نمازِ جنازہ کا اثبات ہے۔ علماء نے ان کی تطبیق میں مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔
صاحب ’’المنتقیٰ‘‘ فرماتے ہیں: جن روایات میں نمازِ جنازہ کا ذکر ہے ۔ سند کے اعتبار سے ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں ہے۔ اہل مدینہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نمازِ جنازہ کی نفی کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جو اسانید جیدہ کے ساتھ مروی ہیں اور جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے شہداء احد پر نمازِ جنازہ پڑھی اور حضرت حمزہ پر ستر تکبیریں کہیں وہ روایت صحیح نہیں۔ لیکن علامہ البانی صاحب نے اس قسم کی بعض روایات کو صحیح یا حسن قرا دیا ہے۔ اس کے برعکس علمائے کوفہ جن میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔ شہید پر نمازِ جنازہ کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال بعض ان روایات سے ہے۔ جن میںشہید پر جنازہ کا ثبوت ملتا ہے۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ ’’تہذیب السنن‘‘ میں رقمطراز ہیں۔ اصل یہ ہے کہ نمازِ جنازہ میں امام کو اختیار ہے کیونکہ دونوں طرف آثار موجودہ ہیں۔
لیکن مسئلہ ہذا میں میرا رجحان شہید معرکہ کے عدمِ جنازہ کی طرف ہے کیونکہ اس بارے میں وارد روایات اصح ہیں۔ بنسبت ان روایات کے جن میں اثبات کا ذکر ہے۔ شیخنا محدث روپڑی رحمہ اللہ نے بھی فتاویٰ اہل حدیث میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب