السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جنازہ پڑھاتے وقت صف لمبی ہونے کی صورت میں سامنے آٹھ دس فٹ دور اگر قبریں ہوں تو کیا نمازِ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے ؟ ایک عالم فرما رہے تھے کہ نماز نہ پڑھی جائے۔ جواب کے طور پر ہم نے وہ حدیث پیش کی، جس میں آپ نے اس خادمہ کی قبر پر جا کر نماز پڑھی جو مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی، تو وہ فرمانے لگے کہ فقہاء کے نزدیک یہ نبیﷺ کا خاصہ ہے لہٰذا ہم نہیں پڑھ سکتے۔ آپ اس کے متعلق قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ (سائل: ابوطلحہ محمد خالد عزیز) (۹ فروری ۲۰۰۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشارٌ الیہ حدیث کو آپ کا بطورِد لیل پیش کرنا درست ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض فقہائے حنفیہ اور مالکیہ نے اس واقعے کو نبی علیہ السلام کا خاصہ قرار دیا ہے چنانچہ علامہ علی القاری ’’شرح مشکوٰۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ زیادہ درست یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول اکرمﷺ کے ساتھ خاص تھا اور دوسروں نے آپ کے بالتبع نماز پڑھی ہے اور یا ان لوگوں نے پڑھی جو پہلے نماز میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہم متعدد مرتبہ بیان کر چکے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ کے ساتھ کسی امر کا خاص ہونا بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہو سکتا اور آپ کے اس فرمان سے کہ ’’ اللہ تعالیٰ میری نماز (جنازہ پڑھنے) سے قبر کو روشن کردیتا ہے۔‘‘ قبر پر نمازِ جنازہ کی مشروعیت کی نفی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح امام زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے قبر پر نماز کو آپ کا خاصہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺکے پیچھے لوگ صف باندھ کر کھڑے ہوگئے لہٰذا اگر آپ کا خاصہ ہوتا تو آپ منع فرمادیتے۔
علاوہ ازیں امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالب گمان یہ ہے کہ یہ زائد الفاظ ( کہ میری نماز سے اللہ قبر روشن کردیتا ہے) ثابت کی مراسیل سے ہے؟ ’’جب مسلمان کے جنازے میں چالیس آدمی توحید والے شریک ہو جائیں اللہ ان کی سفارش اس کے حق میں قبول کرے گا۔‘‘( صحیح مسلم،بَابُ مَنْ صَلَّی عَلَیْہِ أَرْبَعُونَ شُفِّعُوا فِیہِ،رقم:۹۴۸،سنن أبی داؤد،رقم: ۳۱۷۰)
تو کیا اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ چالیس سے کم لوگ جنازہ نہ پڑھیں؟ نیز زکوٰۃ کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿خُذ مِن أَموٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم إِنَّ صَلوٰتَكَ سَكَنٌ لَهُم ...﴿١٠٣﴾... سورة التوبة
’’ان کے مالوں سے صدقہ لو، اس(صدقہ) کے ذریعے تو ان کا ظاہر و باطن پاک کرو اور ان کے لیے دعا کرو، بے شک تیری دعاان کے لیے تسلی ہے۔‘‘
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ لینا، آپ کا ہی خاصہ ہے ، کیونکہ آپ کی دعا ان کے لیے تسلی ہے ، کسی اور کی نہیں… سیدنا ابوبکر کی خلافت میں جو لوگ زکوٰۃ کے منکر ہو گئے تھے، انھوں نے بھی یہی آیت پیش کرکے کہا تھا کہ زکوٰۃ کا حکم رسول اللہﷺ کی حیات تک تھا، اب نہیں، اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تلوار اٹھائی۔ سو اس قسم کے دلائل سے خاصہ ثابت نہیں ہو سکتا، بلکہ کوئی واضح دلیل چاہیے ، جس میں خاصہ ہونے کا ذکر ہو۔ پھر رسول اللہﷺکے پیچھے صحابہ نے بھی نمازِ جنازہ پڑھی، اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ یہ رسول اللہﷺکا خاصہ نہیں بلکہ عام ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث:۴۶۲/۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب