السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ مسجد میںجنازہ پڑھنا مکروہ ہے، کیا یہ درست ہے کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔( محمد اسحاق ضلع قصور) (۱۹ نومبر ۱۹۹۳ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجد کے اندر جنازہ پڑھنا جائز ہے اگرچہ نبی اکرمﷺ کا غالب معمول یہ تھا کہ آپ جناز گاہ میں جنازہ ادا کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:
’ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَی الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّی وَالمَسْجِدِ ۔‘
’’جناز گاہ اور مسجد میں جنازہ پڑھنے کا بیان۔‘‘
پھر کئی احادیث سے اس کے اثبات کی سعی فرمائی ہے۔
اس بارے میں سب سے واضح دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ، فرمایا:
’ وَاللهِ، لَقَدْ صَلَّی رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَی ابْنَیْ بَیْضَاء َ فِی الْمَسْجِدِ سُهَیْلٍ وَأَخِیهِ ۔‘( صحیح مسلم:۷/۳۹،بَابُ الصَّلَاةِ عَلَی الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ ،رقم:۹۷۳)
’’یعنی اللہ کی قسم رسول اللہﷺنے بیضاء کے دونوں بیٹے سہیل اور اس کے بھائی کا جنازہ مسجد میں پڑھا تھا۔‘‘
زیر حدیث امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَفِی هَذَا الْحَدِیثِ دَلِیلٌ لِلشَّافِعِیِّ وَالْأَکْثَرِینَ فِی جَوَازِ الصَّلَاةِ عَلَی الْمَیِّتِ فِی الْمَسْجِدِ وممن قال به أحمد واسحاق ‘
یعنی ’’ اس حدیث میں شافعی رحمہ اللہ اور اکثر اہل علم کی دلیل ہے کہ مسجد میں جنازہ پڑھنا جائز ہے اور جولوگ اس بات کے قائل ہیں ان میں سے امام احمد رحمہ اللہ اور اسحاق رحمہ اللہ بھی ہیں۔‘‘
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن ابی شیبہ سے بیان فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد میں پڑھا تھا اور صہیب رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد میں پڑھا اور ’’ابن ابی شیبہ‘‘ کی روایت میں یہ زیادتی بھی موجود ہے :
’ وَوُضِعَتِ الْجِنَازَةُ فِی الْمَسْجِدِ تُجَاهَ الْمِنْبَرِ ۔‘
یعنی ’’جنازہ منبر کے سامنے مسجد میں رکھا گیا۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَهَذَا یَقْتَضِی الْإِجْمَاع علی جَوَاز ذَلِك‘ (فتح الباری:۱۹۹/۳)
’’یعنی امر ہٰذا اس بات کا متقاضی ہے کہ مسجد میںجنازہ کے جواز پر صحابہ کا اجماع تھا۔‘‘
اور ابن قدامہ نے کہا:
’ کَانَ هٰذَا بِمَحْضَرٍ مِنَ الصِّحَابَةِ فَلَمْ یُنْکَر فَکَانَ اِجْمَاعًا ۔‘
اور جو لوگ عدمِ جواز کے قائل ہیں ان میں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ ان کا استدلال ’’سنن ابی داؤد‘‘ کی ایک روایت سے ہے:
’ مَنْ صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فِی الْمَسْجِد، ِ فَلَا شَیْء َ عَلَیْهِ (لَهُ) ۔‘( سنن ابی داؤد،بَابُ الصَّلَاةِ عَلَی الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ،رقم:۳۱۹۱)
’’یعنی جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں۔‘‘
اہل علم نے اس حدیث کے مختلف جوابات دیے ہیں۔
۱۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ هٰذَا حَدِیْثٌ ضَعِیْفٌ تَفَردَ بِهٖ صَالِحٌ مَوْلٰی التَوأمة ‘
۲۔ ابوداؤد کے محقق اور مشہور و مسموع نسخوں میں یہ الفاظ یوں ہیں:
’ وَ مَنْ صَلَّی عَلٰی جَنَازَةٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلَا شَیْئَ عَلَیْهِ ۔‘ ایضًا
’’یعنی جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا اس پر کوئی شئے نہیں۔‘‘ یعنی گناہ وغیرہ۔ تو اس صورت میں یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہی نہیں بنتی بلکہ جواز ہی کی دلیل بنے گی۔
۳۔ اگر یہ حدیث ثابت ہو جائے تو اس کی تاویل فَلَا شَیْئَ لَهُ بمعنی فَلَا شَیْئَ عَلَیْهِ بمعنی ضروری ہے تاکہ مختلف احادیث کو جمع کیا جا سکے۔ اور قرآن میں بھی لَہُ بمعنی عَلَیْہِ وارد ہے۔ فرمایا :
﴿ وَإِن أَسَأتُم فَلَها...﴿٧﴾... سورة الإسراء
۴۔ یہ حدیث کمی ٔ اجر پر محمول ہے یعنی کوئی مجرد جنازہ پڑھ کر واپس آگیا قبرستان تک نہیں گیا تو اس سے اجر کم ہو جاتا ہے۔
علامہ ملا علی قاری حنفی نے کہا یہ بات زیادہ واضح ہے کہ اس حدیث کو نفی کمال پر محمول کیاجائے۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کا ’’بہشتی زیور‘‘ میں جنازہ کو مسجد میں مکروہ قرار دینا مرجوح اور ناقابلِ التفات مسلک ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَالْحَقُّ أَنَّهٗ یَجُوْزُ الصَّلَاةُ عَلَی الْجَنَائِزِ فِی الْمَسْجِدِ مِنْ غَیْرِ کَرَاهَةٍ ، وَالأَفْضَلُ الصَّلَاةُ عَلَیْهَا خَارِج الْمَسْجِد ؛ لِأنَّ أکثَر صَلَاتِهٖ. صَلَّی اللّٰهُ علَیْهِ وَسَلَّمَ . عَلَی الْجَنَائِزِ کَانَ فِی الْمُصَلّی ۔‘
یعنی حق بات یہ ہے کہ بلا کراہت نمازِ جنازہ مسجد میں جائز ہے البتہ افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر ہو کیونکہ زیادہ جنازے آپﷺ جناز گاہ میں پڑھتے تھے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب