السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال کا پس منظر: ہماری فیملی میں دو گروپ ہیں۔ دونوں ہم عقیدہ ہیں۔ ان دونوں میں بڑھتی ہوئی رنجش ہے۔ ان میں سے ایک بزرگ اپنی اولاد اور متاثرین سے کہتے ہیں۔ مرجاؤں تو فلاں شخص( جس کا تعلق مخالف گروہ سے ہے) نہ میرا جنازہ پڑھے، پڑھائے اور نہ جنازہ کے ساتھ آئے۔
سوال یہ ہے کہ آیا ایسی وصیت کرنا شرعاً درست ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔ جب کہ اس کے بہت گھناؤنے اثرات کا ظہور بہت مخدوش بلکہ یقینی ہے۔
نوٹ: یہ بھی وضاحت کردینی ضروری ہے کہ ان بزرگ کی اولاد میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہ منکر وصیت ہے کیونکہ اس سے خاندان مزید ابتری کی طرف مائل ہو گا اور اصلاح کی ممکنہ صورتیں معدوم ہو جائیں گی اور یہ کہ کسی کو ایسی وصیت کرنی ہی نہیں چاہیے جس سے(بعد میں) لواحقین فتنہ کا شکار ہوں بلکہ بعد کی باتیں بعد والوں پر چھوڑ دینی چاہئیں تاکہ وہ وقت کی مناسبت اور نزاکت کو دیکھ کر معقول فیصلہ کرکے الجھاؤ سے بچ سکیں۔
موت کا وقت معلوم نہیں لہٰذا استدعاء ہے کہ فی الفور اس کا جواب مع شرعی دلائل الاعتصام میں شائع فرما کر مشکور فرمائیں۔ ( ایک سائل۔ لاہور) (۳۰ اکتوبر۱۹۹۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی بھی مسلم کے جنازہ میں شرکت چونکہ امورِ خیر میں سے ہے اس کے حصول کی شریعت نے متعدد نصوص میں تحضیض و ترغیب دلائی ہے کہ اس کارِ خیر کا فاعل اتنے اتنے اجر و ثواب کا مستحق ہوگا چونکہ یہ استحقاق بندہ کو اللہ کی طرف سے تفویض کردہ ہے۔ لہٰذا دنیاوی کدورتوں و نزاعات کی بناء پر اس میں کسی کو رکاوٹ بننے کا کوئی اختیار نہیں۔ موصی کی اس قسم کی وصیت کہ فلاں اور فلاں میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں ، ناقابل عمل اور اپنے اختیارات کی حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿فَمَن خافَ مِن موصٍ جَنَفًا أَو إِثمًا فَأَصلَحَ بَينَهُم فَلا إِثمَ عَلَيهِ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٨٢﴾... سورة البقرة
’’اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بدل کر) وارثوں میں صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں بے شک اللہ بخشنے والا (اور) رحم والا ہے۔‘‘
لہٰذ جملہ ورثاء اور عام مسلمان بلاتردّد مرحوم کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے حقدار ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب