سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) نماز جنازہ کے بعد میت کے لئے دعا مانگنا شرعاً کیسا ہے؟

  • 25171
  • تاریخ اشاعت : 2024-09-17
  • مشاہدات : 3297

سوال

(56) نماز جنازہ کے بعد میت کے لئے دعا مانگنا شرعاً کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ سے فارغ ہوچکنے کے بعد میت کے لئے دعا مانگنا شرعاً کیسا ہے؟ کیا حدیث إذا صلیتم علیٰ المیت فاخلصوا له الدعاء (جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو اس کے لئے خصوصی طور پر دعائیں کرو)او رابن شیبہ کی حضرت علیؓ سے روایت کہ ’’انہوں نے نماز جنازہ پڑھی پھرمیت کے لئے دعا‘‘کی، سے اس کا جواز نکلتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بحث طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا نماز جنازہ سے فارغ ہوچکنے کے فوراً بعد میت کے لئے دعا کا جواز ہے یا نہیں؟… نمازِ جنا زہ کے بعد دعا مانگنے کی دلیل کے طور پر ، سوال میں مذکور دو روایات پیش کی جاتی ہیں لیکن درست بات یہ ہے کہ میت کے لئے دعا نماز جنازہ کے دوران مانگی جائے۔پہلی حدیث کی تشریح بقول علامہ مناوی رحمہ اللہ  یوں ہے :

‘‘میت کیلئے اخلاص کے ساتھ دعا کرو کیونکہ اس نماز سے مقصود صرف میت کیلئے سفارش کرنا ہے جب دعا میں اِخلاص اور عاجزی ہوگی تو اسکے قبول ہونے کی امید ہے‘‘(عون المعبود:۱۸۸/۳)

اور مستدرک حاکم میں حضرت ابوامامہ کی روایت میں ہے:

وَیُخْلِصَ الصَّلَاۃَ فِی التَّکْبِیرَاتِ الثَّلَاثِیعنی

’’جنازہ کی تین تکبیروں کے دوران اِخلاص سے دعا کرے۔‘‘(مستدرک للحاکم علی الصحیحین، کِتَابُ الْجَنَائِزِ ،رقم۱۳۳۱) مستدرک حاکم کی اس حدیث سے اس امر کی وضاحت ہوگئی کہ دعا کا تعلق خالصۃ ً حالت ِنماز کے ساتھ ہے نہ کہ بعد از نماز سے۔

اصو لِ فقہ کا معروف قاعدہ ہے کہ الاحادیث یفسربعضھا بعضا ’’احادیث ایک دوسری کی تفسیر کرتی ہیں’’،اس بنا پر اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم نمازِ جنازہ پڑھنا چاہو تو میت کے لئے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔ یہ إقامۃ المسبب مقام السبب (سبب بول کر مسبّب مراد لینا)کی قبیل سے ہے، ارادہ سبب اور نماز مسبّب ہے۔ حدیث کے الفاظ فَاَخْلِصُوْا میں ’’فاء ‘‘کے ترتیب و تعقیب بلامہلت ہونے کا یہی مطلب ہے...اگر مقصود یہاں نماز جنازہ سے فراغت کے بعد دعا ہوتی تو پھر فاء کی بجائے لفظ ثُمَّ ہونا

چاہئے تھا جو عام حالات میں ترتیب اور تراخی کا فائدہ دیتا ہے۔ احناف کی یہ توجیہ غلط ہے کہ فاء تعقیب کا یہ مطلب ہے کہ نماز کے بعد دعا کی جائے۔

علاوہ ازیں یہ حدیث سنن ابوداود اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ہے اور امام ابوداود نے اس حدیث کو جنازہ کے دوران دعا پڑھنے کے ضمن میں ذکر کیا ہے انہوں نے اس پر عنوان یوں قائم کیا ہے:باب الدعا للمیت اور اس حدیث پر امام ابن ماجہ کی تبویب بھی ملاحظہ فرمائیں اور بار بار غور سے پڑھیں:

باب ماجاء فی الدعاء فی الصلاۃ علی الجنازۃ یعنی نمازِ جنازہ میں دعا کے بارے میں جو کچھ آیا ہے، ا س کا بیان ...اس سے معلوم ہوا کہ محدثین اور احناف کے فہم میں زمین آسمان کا فرق ہے لہٰذا اس تحریف پر انہیں ندامت کا اظہار کرکے حق کی طرف رجوع کی فکر کرنی چاہئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’مراجعۃ الحق خیر من التمادی فی الباطل‘‘ باطل پر اصرار سے بہتر ہے کہ آدمی حق کی طرف رجوع کرلے ۔ (إعلام الموقعین)

اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے قرآنِ مجیدمیں ہے

﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾ (النحل:۹۸)

’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘

ائمہ لغت زجاج وغیرہ نے اس کا معنی یوں بیان کیا ہے: إذا اردت ان تقرا القرآن فاستعذ بالله ولیس معناه استعاذ بعد ان تقرا القرآن ’’جب آپ قرآن کی تلاوت کا ارادہ کریں تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کریں، اس کا یہ معنی نہیں کہ تلاوت ِقرآن کے بعد اعوذ باﷲ پڑھا کرو۔‘‘

اسی کی مثل قائل کا قول ہے: إذا اکلت فقل بسم اللہ یعنی جب تو کھانے کا ارادہ کرے تو بسم اللہ پڑھ، اس کا قطعاً یہ معنی نہیں کہ کھانے سے فراغت کے بعد بسم اللہ پڑھنی چاہئے’’...امام واحدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’’فقہاء کرام کا اس بات پراجماع ہے کہ استعاذہ قراءت سے پہلے ہے’’۔ (تفسیر فتح القدیر:۱۹۳/۳)

بلاشبہ شرع میں دعا کی بالعموم تاکید ہے ۔غالباً اس بنا پر فقہاء حنفیہ نے جنازہ میں قراء ت سے استغنائی پہلو اختیار کرکے اس کا نام دعاء وثناء وغیرہ رکھا ہے۔ مؤطا امام محمد میں ہے :لا قراءة علی الجنازة وهو قول ابی حنیفة  اور یہ قول المبسوط للسرخسی رحمہ اللہ  میں بھی ہے (۶۴/۲) ... البتہ محقق ابن الہمام فتح القدیر (۱/۴۸۹) میں فرماتے ہیں:

’’فاتحہ نہ پڑھے تاہم بہ نیت ِثنا پڑھی جاسکتی ہے۔کیونکہ قراء ت رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں’’

علامہ ابن الہمام جیسے محقق کی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے، اس لئے کہ فاتحہ کی قراء ت کا اثبات تو صحیح بخاری میں موجود ہے: باب قراء ۃ فاتحةالکتاب علی الجنازۃ۔ تو پھر کیا یہ بات معقول ہے کہ اثناء جنازہ میں اخلاصِ دعا کی تاکید تو نہ ہو، لیکن سلام پھیرنے کے بعد کہاجائے کہ اب اِخلاص سے دعا کرو۔ غالباً اس دھوکہ کے پیش نظر حنفی بھائی نمازِ جنازہ کا تو جھٹکا کرتے ہیں، بعد میں لمبی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔

اصولِ فقہ کا قاعدہ معروف ہے کہ ’’عبادات میں اصل حظر (ممانعت)ہے، جواز کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے’’۔ عہد ِنبوت میں کتنے جنازے پڑھے گئے، کسی ایک موقع پر بھی ثابت نہیں ہے کہ نبیﷺ نے نمازجنازہ کے بعد دعا کی ہو۔

صحیح بخاری میں حدیث ہے:

’مَنْ أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیْسَ فِیهِ، فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۵۹۷)

’’جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: علیك بالاثر وطریقة السلف وإیاك وکل محدثة فإنها بدعة ’’آثار اور طریقہ سلف کو لازم پکڑو، اپنے آپ کو دین میں اضافہ سے بچائو وہ بدعت ہے۔‘‘ ذمّ التاویل از ابن قدامہ

ابن الماجشون نے کہا کہ میں نے امام مالک سے سنا، وہ فرماتے تھے:

’’جو دین میں بدعت ایجاد کرکے، اسے اچھا سمجھے تو گویا وہ یہ باور کراتا ہے کہ محمدﷺ نے رسالت میں خیانت کی ہے،اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ جو شے اس وقت دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی’’

امام شافعی فرماتے ہیں:’’جس نے بدعت کو اچھا سمجھا اُسنے نئی شریعت بنا لی‘‘(السنن والمبتدعات)

رہا حضرت علیؓ کا اَثر (فعل صحابی ) تو اس کا تعلق نمازِ جنازہ کے متصل بعد سے نہیں بلکہ اس کا تعلق دفن میت کے بعد سے ہے کیونکہ مصنف نے اس اثر پرجو عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ جملہ آثار اسی بات پر دلالت کرتے ہیںکہ اس دعا کا تعلق تدفین میت کے بعد سے ہے ، عنوان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے: ’...فی الدعاء للمیت بعد مایدفن ویسوی علیہ‘ قبر پر مٹی برابر کرکے میت کے لئے دعا کرنے کا بیان۔ اور تدفین کے بعد میت کے لئے دعا کرنا ثابت شدہ امر ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے:

’’میں نے رسول اللہﷺ کو عبداللہ ذی نجا دین کی قبر پردیکھا، جب دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر دعا کی‘‘(اخرجہ ابوعوانۃ فی صحیحہ، فتح الباری ،۱۱؍۱۴۴)

تمام خیر سنت نبوی کی پیروی میں ہے ، اور بدعت میں شر ہی شر ہے ۔اللہ ربّ العزت جملہ مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین!

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:117

محدث فتویٰ

تبصرے