السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جنازہ کی نماز میں سلام ایک طرف کا حکم ہے یا دونوں طرف؟ (حاجی بشیر احمد کشمیری) (۲ جنوری ۱۹۹۸ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازِ جنازہ میں دو سلام ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے :
’ ثَلَاثُ خِلَالٍ کَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُهُنَّ، تَرَکَهُنَّ النَّاسُ , إِحْدَاهُنَّ: التَّسْلِیمُ عَلَی الْجِنَازَةِ مِثْلُ التَّسْلِیمِ فِی الصَّلَاةِ ‘ (السنن الکبریٰ للبیهقی،بَابُ مَنْ قَالَ یُسَلِّمُ عَنْ یَمِینِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ،رقم:۶۹۸۹)
یعنی’’ تین خصلتیں ایسی ہیں ، رسول اللہﷺ ان پر عمل پیرا تھے لیکن لوگوں نے انھیں ترک کردیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جنازہ میں سلام نما زکی طرح ہے ۔‘‘
اور’’صحیح مسلم‘‘وغیرہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے :
’اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ کَانَ یُسَلِّمُ تَسْلِمَتَیْنِ فِی الصَّلٰوةِ۔‘ (صحیح مسلم،بَابُ السَّلَامِ لِلتَّحْلِیلِ مِنَ الصَّلَاةِ عِنْدَ فَرَاغِهَا وَکَیْفِیَّتِهِ ،رقم:۵۸۱)
’’یعنی نبیﷺ نماز میں دو سلام پھیرتے تھے۔ ‘‘
اس سے پہلی حدیث کے اجمال کی وضاحت ہو جاتی ہے۔(تلخیص احکام الجنائز)
لیکن علامہ عینی کی شرح بخاری بحوالہ المعرفہ ابن مسعود کی اسی روایت میں دو سلام کی تصریح ہے۔ نیز سنن کبریٰ بیہقی میں عبد اللہ بن ابی اوفیٰ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ پر دو سلام پ۹ھیرے تو کہا میں نے رسول اللہﷺکے عمل سے زیادہ نہیں کیا۔ آپﷺ اسی طرح کرتے تھے ۔ لیکن اس میں شریک عن ابراہیم منفرد ہے۔ معروف ان سے ایک سلام ہے۔ اور اگر کوئی صرف ایک سلام پر اکتفا کرے تو یہ بھی جائز ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں تصریح ہے:
’أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی عَلَی جِنَازَةٍ فَکَبَّرَ عَلَیْهَا أَرْبَعًا وَسَلَّمَ تَسْلِیمَةً وَرُوِّینَا عَنْ عَطَاء ِ بْنِ السَّائِبِ مُرْسَلًا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سَلَّمَ عَلَی الْجِنَازَةِ تَسْلِیمَةً وَاحِدَةً۔‘( السنن الکبریٰ للبیهقی،بَابُ مَا رُوِیَ فِی التَّحَلُّلِ مِنْ صَلَاةِ الْجِنَازَةِ بِتَسْلِیمَةٍ وَاحِدَةٍ، رقم: ۶۹۸۲)،( مستدرك للحاکم،کِتَابُ الْجَنَائِزِ،رقم:۱۳۳۲)
’’رسول اللہﷺنے نمازِ جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں کہیں اور ایک سلام پھیرا۔‘‘
اس بناء پر علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں دونوں طرح جواز نقل کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔(عون المعبود:۱۹۳/۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب