سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) نمازِ جنازہ میں رفع الیدین

  • 25153
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-17
  • مشاہدات : 3796

سوال

(38) نمازِ جنازہ میں رفع الیدین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمازِ جنازہ میں رفع الیدین ثابت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازِ جنازہ کی تکبیرِ اولیٰ میں رفع الیدین پر جملہ اہلِ علم متفق ہیں۔ باقی تکبیرات میں اختلاف ہے۔

چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ  بحوالہ کتاب’’الاشراف والاجماع ‘‘ لابن المنذر فرماتے ہیں:

’أَجمَعُوا عَلٰی أَنَّهٗ یُرفَعُ فِی أَوَّلِ تَکبِیرَةٍ، وَاختَلَفُوا فِی سَائِرِهَا ‘(المجموع:۲۳۲/۵)

’’پہلی تکبیر پر رفع الیدین تو بالاجماع مشروع ہے۔ لیکن باقی تکبیرات پر رفع الیدین میں اختلاف ہے۔‘‘

البتہ امام ترمذی نے اپنی ’’جامع‘‘ میں باقی تکبیرات میں رفع الیدین کو اکثر اہلِ علم کی طرف منسوب کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

’ وَاختَلَفَ أَهلُ العِلمِ فِی هٰذَا، فَرَأَی أَکثَرُ أَهلِ العِلمِ مِن أَصحَابِ النَّبِیِّﷺ، وَغَیرِهِم أَن یَّرفَعَ الرَّجُلُ یَدَیهِ فِی کُلِّ تَکبِیرَةٍ عَلَی الجَنَازَةِ، وَهُوَ ابنُ المُبَارَكِ وَالشَّافِعِیُِّ، وَأَحمَدُ، وَاِسحٰقُ. وَ قَالَ بَعضُ أَهلِ العِلمِ: لَا یَرفَعُ یَدَیهِ إِلَّا فِی أَوَّلِ مَرَّةٍ، وَهُوَ قَولُ الثَّورِی، وَ أَهلِ الکُوفَةِ۔‘ (سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِی رَفْعِ الیَدَیْنِ عَلَی الجَنَازَةِ،رقم:۱۰۷۷)

یعنی اہلِ علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  وغیرہم میں سے اکثر اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ جنازہ میں ہر تکبیر پر رفع الیدین کی جائے۔ یہی قول ابن المبارک،امام شافعی،احمد اور اسحاق کا ہے۔بعض اہلِ علم صرف پہلی تکبیر میں رفع الیدین کے قائل ہیں۔ یہ قول امام ثوری رحمہ اللہ  اور اہلِ کوفہ کا ہے۔

جو لوگ تمام تکبیرات میں رفع الیدین کے قائل ہیں، وہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما  کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں:

’ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ إِذَا صَلّٰی عَلَی الجَنَازَةِ، رَفَعَ یَدَیهِ فِی کُلِّ تَکبِیرَةٍ ‘(معرفة السنن والآثار، بَابُ التَّکْبِیرِ عَلَی الْجَنَائِزِ وَغَیْرِ ذَلِكَ،رقم:۷۶۱۳)

یعنی ’’نبیﷺ جب نمازِ جنازہ پڑھاتے تو ہر تکبیر میںرفع یدین کرتے۔‘‘

حدیث ہذا کی سند کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس کو ’’طبرانی أوسط‘‘ کے علاوہ ’’دارقطنی‘‘ نے بھی اپنی ’’العلل‘‘ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ پھر اس کے موقوف ہونے کو درست قرار دیا ہے۔ وجہ یہ بیان کی ہے کہ عمر بن شبّہ کے علاوہ کسی نے اس کو مرفوع ذکر نہیں کیا۔ لیکن شیخ ابن باز رحمہ اللہ  ’’فتح الباری‘‘ پر تعلیقات میں فرماتے ہیں:

’ وَالأَظهُر عَدَمُ الاِلتِفَاتِ إِلٰی هٰذِهِ العِلَّةِ ، لِأَنَّ عُمَرَ المَذکُورِ ثِقَةٌ، فَیُقبَلُ رَفعُهٗ ، لِأَنَّ ذٰلِكَ زِیَادَةٌ مِّن َثِقَةٍ. وَ هِیَ مَقبُولَةٌ عَلَی الرَّاجِحِ عِندَ أئِمَّةِ الحَدِیثِ، وَ یَکُونُ ذٰلِكَ دَلِیلًا عَلٰی شَرعِیَّةِ رَفعِ الیَدَینِ فِی تَکبِیرَاتِ الجَنَازَةِ ۔ (وَاللّٰهُ أَعلَم) (فتح الباری:۱۹۰/۳)

یعنی ’’زیادہ واضح بات یہ ہے کہ یہ علت ناقابلِ التفات ہے، کیونکہ عمر مذکور ثقہ ہے۔ اس کا رفع قابلِ قبول ہے۔ راجح قول کے مطابق ائمہ حدیث کے ہاں ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ لہٰذا حدیث ہذا اس بات کی دلیل ہے کہ نمازِ جنازہ کی تکبیرات میں رفع یدین مشروع ہے۔‘‘ (واﷲ أعلم)

دوسری طرف حنفیہ و ثوری کے علاوہ حافظ ابن حزم، امام شوکانی اور علامہ البانی  رحمہم اللہ   وغیرہ تکبیرِ اُولیٰ میں رفع یدین کے ما سوا باقی تکبیروں میں عدمِ رفع کے قائل ہیں۔ وجہ یہ بیان کی ہے کہ کوئی قابلِ حجت مرفوع دلیل نہیں مل سکی۔ یاد رہے شیخ ابن باز رحمہ اللہ  کی بات بھی محلِّ نظر ہے، کیونکہ راوی عمر بن شبّہ بقول ابن حجر رحمہ اللہ  ’’صدوق‘‘ ، ’’درجۂ رابعہ‘‘ سے ہے۔ اس کی زیادتی ثقات کے خلاف قابلِ قبول نہیں۔ البتہ ابن عمر رضی اللہ عنہما  اور ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے صحیح سندوں سے رفع یدین ثابت ہے۔ اس بناء پر امام عبد الجبار رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ہاتھ اٹھانا، نہ اٹھانے سے بہتر ہے۔ (فتاویٰ غزنویہ:ص:۹۹،۱۰۰)

مولانا محمد عبدہٗ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان دلائل کی روشنی میں ہم رفع الیدین کو غیر مشروع نہیں کہہ سکتے۔ (أحکام جنائز،ص:۱۷۹)

ایک روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ بھی تمام تکبیروں میں رفع یدین کے قائل ہیں۔اکثر أئمۂ بلخ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو!’’المبسوط‘‘ للسرخسی(۶۴/۲) حنفیہ کے اس قول کو علامہ البانی رحمہ اللہ  نے حدیث ’’أُسکُنُوا فِی الصَّلَاةِ‘‘ کے جواب میں استعمال کیا ہے۔ملاحظہ ہو! حاشیہ’’التنکیل‘‘ (۳۸/۲)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:109

محدث فتویٰ

تبصرے