سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا

  • 25151
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2521

سوال

(36) نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1…  ’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’ لَا صَلَاةَ لِمَن لَم یَقرَأ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ ‘صحیح البخاری، باب وُجُوبِ القِرَائَةِ لِلاِمَامِ وَالمَامُومِ فِی الصَّلٰوةِ کُلِّهَا … الخ،(رقم:۷۵۶،صحیح مسلم:۳۹۴)

’’جس نے نماز میں فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں۔‘‘

وجہِ استدلال یہ ہے کہ حدیث ہذا عموم کے اعتبار سے نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے، اس لیے کہ نبی ﷺ نے اس کا نام بھی نماز رکھا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

’مَن صَلّٰی عَلٰی الجَنَازَةِ ‘ نیز فرمایا: ’ صَلُّوا عَلٰی صَاحِبِکُم‘ اور دوسری روایت میں ہے: ’ صَلُّوا عَلَی النَّجَاشِیامام بخاری  رحمہ اللہ  اپنی ’صحیح‘ کے (ترجمۃ الباب)میں رقمطراز ہیں: ’ سَمَّاهَا صَلَاةً لَیسَ فِیهَا رُکُوعٌ، وَ لَا سَُجُودٌ‘

یعنی نمازِ جنازہ میں رکوع اور سجود نہ ہونے کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے اس کا نام نماز رکھا ہے۔

2…  ’’صحیح بخاری‘‘ میں طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے:

’ صَلَّیتُ خَلفَ ابنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ  عَلٰی جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ ۔قَالَ : لِتَعلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ ‘(صحیح البخاری، بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَةِ،رقم:۱۳۳۵)

’’میں نے ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کی اقتداء میں نمازِ جنازہ پڑھی تو انھوں نے ’’سورہ فاتحہ‘‘ کی تلاوت کی۔ فرمایا، یہ اس لیے کیا ہے تاکہ تمھیں اس کے سنت ہونے کا علم ہوجائے۔‘‘

صحابہ کا کسی فعل کو ’مِنَ السُّنَّة‘ کہنا اکثر علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ  ’’کتاب الام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت کے صحابہ  رضی اللہ عنہم  جب کسی فعل کو سنت کہتے ہیں، تو اس سے آپﷺ کی سنت مراد ہوتی ہے۔’’فتح الباري‘‘(۲۰۴/۳) میں ہے: ’ وَقَد أَجمَعُوا عَلٰی اَنَّ قَولَ الصَّحَابِی سُنَّةٌ ‘

حدیث مسند ہے علمائے حنفیہ نے بھی متعدد فروع اسی اصل پر قائم کی ہیں مثلاً: ہدایہ میں ہے ’’اور جب میت کی چارپائی اٹھائیں تو اس کے چارپائے پکڑ کر اٹھائیں۔ اس کے ساتھ سنت وارد ہے۔ امام شافعی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: سنت طریقہ یہ ہے کہ چارپائی کو دو شخص اٹھائیں۔ اگلا شخص اپنی گردن پر رکھے اور پچھلا اپنے سینہ پر۔ شارح ہدایہ ابن الہمام رحمہ اللہ  امام شافعی رحمہ اللہ  پر ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام شافعی کا یہ قول سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:

’ مَنِ اتَّبَعَ الجَنَازَةَ فَلیَأخُذ بِجَوَانِبِ السَّرِیرِ کُلِّهَا فَاِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ  ‘(سنن ابن ماجه،بَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ ،رقم:۱۴۷۸)

’جو شخص جنازے کے ساتھ جائے وہ باری باری اس کے سب جوانب سے پکڑ کر اٹھائے۔ بے شک یہ مسنون ہے۔‘‘

لہٰذا اس سنت پر عمل ضروری ہے۔

3… ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نمازِ جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے، کہ امام پہلے تکبیر کہے، پھر فاتحہ پڑھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: ’’ إسنادہ صحیح‘‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (۲۰۴/۳)

نیز  صحیح بخاری کے (ترجمۃ الباب) میں حضرت حسن سے منقول ہے: ’ یَقرَأُ عَلَی الطِّفلِ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ‘(صحیح البخاری،بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَة )

بچے کی نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے۔

ابن المنذر نے حضرت عبداللہ بن مسعود، حسن بن علی، ابن زبیر اور مسور بن مخرمہ سے نمازِ جنازہ میں فاتحہ کی مشروعیت نقل کی ہے۔ نیز امام شافعی، امام احمد اور دیگر اہلِ علم نمازِ جنازہ میں فاتحہ اور ایک دیگر سورت کی قرأت کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ حضرت مجاہد کہتے ہیں:

’ سَأَلتُ ثَمَانِیَةَ عَشَرَ صَحَابِیًا، فَقَالُوا : یَقرَأُ ‘رواه الاثرم حاشیه موطأ امام محمد

’’میں نے اس کے بارے میں اٹھارہ صحابہ کرام سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: ’’فاتحہ‘‘ پڑھی جائے۔‘‘

دوسری طرف علمائے حنفیہ ہیں، جو نمازِ جنازہ میں قرأت کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ امام محمد ’’الموطأ‘‘ میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کا اثر نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’ وَ بِهٰذَا نَاخُذُ لَا قِرَائَةَ عَلٰی الجَنَازَةِ. وَهُوَ قَولُ أَبِی حَنِیفَةِ ‘(مؤطا امام مالك، بَابُ: الصَّلاةِ عَلَی الْمَیِّتِ وَالدُّعَاء ِرقم:۳۱۱)

نیز صاحبِ ’’ہدایہ‘‘ صفت نمازِ جنازہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ وَالبَدَائَةُ بِالثَّنَاءِ، ثُمَّ بِالصَّلٰوةِ لِاَنَّهَا سُنَّةُ الدُّعَاءِ ۔‘

یعنی پہلے ثناء اور پھر درود شریف پڑھے۔ کیونکہ دعا کا یہ مسنون طریقہ ہے۔

امام محمد  رحمہ اللہ  کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا عبدالحی حاشیہ مؤطا پر لکھتے ہیں:

’’ہوسکتا ہے کہ اس سے کراہت کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ متأخرین میں سے اکثر حنفیہ نے تصریح کی ہے … اور لکھاہے کہ اگر دعا کے طور پر ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھ لی جائے تو کچھ حرج نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام محمد کی مراد لزوم کی نفی ہو، اور وہ جواز قرأت کے قائل ہوں۔ چنانچہ ہمارے متأخرین علماء میں سے حسن شرنبلالی نے اس کو اختیار کیا ہے اور انھوں نے اپنے رسالہ ’’النظم المستطاب‘‘ میں اس کی خوب وضاحت کی ہے اور جو علماء کراہت کے قائل ہیں، ان کی تردید کی ہے، اور لکھا ہے:

’ وَهٰذَا هُوَ الأَولٰی لِثُبُوتِ ذٰلِكَ عَن رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ ‘

’’اور یہی بات اولیٰ ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے ثابت ہے۔‘‘

مولانا عبدالحی نے ’’التعلیق الممجد‘‘ میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ قاضی ثناء اللہ حنفی مجددی بھی اپنے ’’وصیت نامہ‘‘ میں اس بات کے قائل ہیں۔ فتاویٰ مفید الاحناف، ص:۲

امام طحاوی  رحمہ اللہ  وغیرہ نے بھی اپنے مسلک کی حمایت کے لیے احادیث قرأت کی تأویل کو ضروری خیال کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’ مَن قَرَأَهَاَ مِنَ الصَّحَابَةِ یَحتَمِلُ أَن یَکُونَ عَلٰی وَجهِ الدُّعَاءِ، لَا التِّلَاوَةِ ۔‘

’’ممکن ہے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   رضی اللہ عنہم  نے جنازے میں سورۂ فاتحہ پڑھی انھوں نے تلاوت وقرأت کی بجائے بطورِ دعا پڑھی ہو۔‘‘

حالانکہ اس تأویل کی تردید کے لیے یہی کافی ہے، کہ احادیث میں تو ’’فاتحہ الکتاب‘‘ کی قرأت کے ساتھ ایک سورت کا بھی ذکر ہے، جس میں علی وجہ الدعا والی تأویل ممکن نہیں، اور پھر یہ محض دعویٰ ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں۔ چنانچہ امام ابن حزم  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَهٰذَا بَاطِلٌ لِأَنَّهُم ثَبَتَ عَنهُم الاَمرُ بِالقِرَائَة ِ وَ اِنَّهَا سُنَّتُهَا فَقَولٌ مَن قَالَ : لَعَلَّهُم قَرَاءُوهَا دُعَائًا کَذبٌ بُحتٌ ۔‘

یعنی ’’بطورِ دعا والا نظریہ باطل ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   رضی اللہ عنہم  سے قرأت کا حکم ثابت ہے اور یہ نمازِ جنازہ میں مسنون ہے۔ پس جن لوگوں نے کہا ہے، کہ ممکن ہے انھوں نے فاتحہ کو بطورِ دعا پڑھا ہو سفید جھوٹ ہے۔‘‘

ان اصحابِ قیاس پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو نمازِ جنازہ کو نماز کہتے ہیں، اس میں تکبیر، استقبالِ قبلہ، امامتِ رجال، طہارت، سلام واجب قرار دیتے ہیں، اور پھر قرأت کو ساقط کرتے ہیں۔

حالانکہ حدیث

’لاَ صَلَاةَ اِلَّا بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ ‘(صحیح البخاری، باب وُجُوبِ القِرَائَةِ لِلاِمَامِ وَالمَامُومِ فِی الصَّلٰوةِ کُلِّهَا … الخ، رقم: ۷۵۶)،(صحیح مسلم:۳۹۴)اپنے عموم کے اعتبار سے نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔ لہٰذا سابقہ دلائل کے بعد ان بے اصل تأویلات کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں۔ اب جنازے میں سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا جائز کی بجائے واجب ماننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

پھر یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حنفیہ کے نزدیک سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھنا مسنون ہے۔ حالانکہ جنازے میں اس کا اصلاً ثبوت ہی نہیں ہے (جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  وغیرہ نے تصریح کی ہے) اور قرأت کی نفی کرتے ہیں جو کہ احادیث وآثار سے ثابت ہے۔(کتاب احکام جنائز)

لہٰذا ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کی روایت کے صحیح طُرق سے صرفِ نظر کرکے محض ضعیف طریق پر اعتماد کر بیٹھنا سراسر بے انصافی اور مسلک پروری ہے۔ امید ہے راہِ حق کے متلاشی کے لیے یہ چند دلائل کافی ہوں گے۔ (والتوفیق بید اللہ)

نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرا ء ت پر اعتراضات کا جائزہ

ماہنامہ ’’محدث‘‘اور ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘مؤرخہ ۱۵؍ دسمبر ۲۰۰۰ء میں جنازہ کے بعد مروّجہ دعا کے سلسلہ میں حنفی، بریلوی فتویٰ کے تعاقب میں میرا ایک فتویٰ شائع ہوا۔ اس میں ضمناً جنازہ میں سورۂ فاتحہ کی قراء ت کامسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ اس پر اسلام آباد سے محترم ابوبکر صدیق صاحب بایں الفاظ معترض ہیں:

‘‘بخاری میں اس سلسلہ کی کوئی مسند روایت کہاں ہے؟ اس بات کے ضعف کا آپ کو اندازہ تھا، اس لئے گول مول الفاظ استعمال کرکے قارئین کو یہ تاثر دیا گیا گویا بخاری میں کوئی مرفوع حدیث اس سلسلہ میں موجود ہے۔ اگر اس باب میں مرفوع حدیث ہوتی تو بحوالہ ابن حجر رحمہ اللہ   حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ  جیسے جلیل القدر صحابہ قراء تِ فاتحہ کیوں نہ کرتے؟‘‘

قارئین کرام! اس وقت بنیادی طور پر اس بات کا جائزہ لینا مقصود ہے کہ کیا نمازِ جنازہ میں قراء ۃ فاتحہ ثابت ہے یا نہیں؟

(۱) پہلے صحیح بخاری میں باب قراء ۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ کے تحت مشارٌ الیہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ‘‘انہوں نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی، جس میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور فرمایا (میں نے فاتحہ اس لئے پڑھی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ جنازہ میں سورہء فاتحہ پڑھنا سنت ہے‘‘(صحیح البخاری،الجنائز،بَابُ قِرَاء َۃِ فَاتِحَۃِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَۃِ ،رقم:۱۳۳۵) 

اور حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے ایک جنازہ میں الحمد جہر سے پڑھی، پھر فرمایا:میں نے جہر سے اس لئے پڑھا ہے تاکہ تم لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ جنازہ میں الحمد پڑھنا سنت ہے۔‘‘ (مستدرک علی الصحیحین للحاکم،کِتَابُ الْجَنَائِزِ،رقم:۱۳۲۳)

(۲) اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نمازِ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ نمازی سورۂ فاتحہ پڑھے اور رسول اللہﷺ پر درود بھیجے، پھر میت کے واسطے اِخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراء ت صرف ایک ہی مرتبہ کرے، پھر سلام پھیرے۔ ملاحظہ ہو کتاب فضل الصلاۃ علی النبیﷺ اور المنتقی ابن جارود۔ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیحین کے روای ہے :کذا فی النیل۔

(۳) امام عبدالرزاق اور نسائی ;نے حضرت ابو اُمامہ  رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ’’نمازِ جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ نمازی اللہ اکبر کہے پھر سورۂ فاتحہ پڑھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے۔ پھر میت کے لئے اِخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراء ت صرف پہلی تکبیر میں کرے‘‘۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ إسنادہ صحیح ’’اس کی سند صحیح ہے‘‘۔(مصنف عبدالرزق،بَابُ الْقِرَاء َۃِ وَالدُّعَاء ِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ،رقم:۶۴۲۸)،(سنن النسائی،الدُّعَائُ ، رقم:۱۹۸۹)

(۴) سنن ترمذی میں مروی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے ایک جنازہ پڑھایا تو فاتحہ پڑھی۔ طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: ’’إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ  اَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ ۔‘‘ ’’کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ سنت ہے، یا اس سے سنت کی تکمیل ہوتی ہے۔‘‘( سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی القِرَاء َۃِ عَلَی الجَنَازَۃِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ،رقم:۱۰۲۷، مصنف عبدالرزاق، بَابُ الْقِرَاء َۃِ وَالدُّعَاء ِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ ،رقم:۶۴۲۷)

پھر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جنازہ کو نماز سے موسوم کیا گیا ہے جس کی دلیل نبی اکرمﷺ کے یہ فرامین ہیں: ’ مَنْ صَلَّی عَلَی الْجَنَازَةِ … ، صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ ، صَلُّوا عَلَی النَّجَاشِیْ‘

اِمام بخاری  رحمہ اللہ   فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ ﷺ نے اسے نماز کہا ہے حالانکہ اس میں رکوع ہے نہ سجود، اس میں کلام نہ کرے اور اس میں تکبیر اور تسلیم ہے۔‘‘

پھر یاد رہے کہ حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  کی صحیح حدیث

لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَاب کا عموم نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔

اس بحث میں جواہم شے قابل التفات ہے، وہ یہ ہے کہ صحابی کا کسی فعل یا عمل کو سنت قرار دینے سے کیا وہ واقعی سنت ِنبوی قرار پائے گا؟ اس سے متعلق امام شافعی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ وَ اَصْحَابُ النَّبِیِّ لَا یَقُوْلُوْنَ بِالسُّنَّةِ وَالْحَقّ إِلَّا لِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ ، إِنْ شَاءَ اللّٰهَ۔‘

’’نبی اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سنت اور حق کا اطلاق صرف سنت رسول ﷺ کے لیے ہی کرتے تھے’’

اور امام نووی رحمہ اللہ  نے المجموع(۵؍۲۲۴) میں اسی کو صحیح مذہب قرار دیا اور کہا ہے کہ اصول میں ہمارے اصحاب میں سے جمہور علماء اور دیگر اُصولی اور محدثین اسی بات کے قائل ہیں۔

محقق علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ  حنفی نے التحریر میں اسی بات کو قطعی قرار دیا ہے ۔ اس کے شارح ابن امیر حاج کہتے ہیں:ہمارے متقدمین اصحاب کا یہی قول ہے۔ صاحب ِمیزان، رافع اور جمہور محدثین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔(۲؍۲۲۴)

پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ اثباتِ سنت کے باوجود حنفیہ کا اس صحیح حدیث پر عمل نہیں حالانکہ ان کے اصول کے مطابق ہے۔ موطا امام محمد میں ہے: لَا قِرَائَةَ عَلَی الْجَنَازَةِ وَهوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَةَ جنازہ میں عدمِ قراء ت ہے او رامام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ متاخرین حنفیہ نے جب بنظر غائر اسی کو صحیح پایا اور صحیح حدیث کے مقابلہ میں اپنے مسلک کو مرجوح دیکھا تو اس کی تاویل انہوں نے اس طرح کی کہ فاتحہ کی قراء ت کا جواز تو ہے بشرطیکہ نمازی دعا اور ثنا کی نیت کرے۔ یہ محض اس زعم کی بنا پر ہے کہ حدیث اور قولِ امام میں تطبیق ہوسکے۔ گویا کہ امام صاحب کا قول دوسری ایک حدیث ہے حالانکہ یہ شرط(تاویل) فی نفسہ باطل ہے۔ جب ایک حدیث ثابت ہے تو پھر عمل اسی پر ہونا چاہئے۔

دوسری عجیب بات یہ ہے کہ حنفیہ کے ہاں تکبیر اولیٰ کے بعد نمازِ جنازہ میں ثنا پڑھنا جنازہ کی سنتوں میں شمار ہوتا ہے حالانکہ سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ جو شے ثابت ہے، احناف اس کا انکار کرتے ہیں اور جو ثابت نہیں، اس کے اثبات کی ناکام سعی کرتے ہیں تِلْتَ اِذًا قِسْمَۃً ضِیْزٰی! علامہ ابن ہمام فتح القدیر (۱؍۴۵۹) میں لکھتے ہیں کہ

’’جنازہ میں فاتحہ نہ پڑھی جائے اِلا یہ کہ ثنا کی نیت ہو، قراء ت رسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں۔‘‘

عجب تضاد ہے، خود ہی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحابی کا قولِ ’’سنت‘‘مسند مرفوع کے حکم میں ہے جس کانبی رضی اللہ عنہ  تک اتصال ہوتا ہے جیسا کہ ابھی گزراہے پھر خود ہی اس قاعدہ کو مقامِ بحث میں ترک کردیا ہے۔

نیز ہدایہ میں ہے کہ میت کی چارپائی اُٹھاتے ہوئے چاروں اَطراف سے پکڑا جائے۔ سنت میں اسی طرح آیا ہے۔ علامہ ابن ہمام نے اس پر دلیل یہ قائم کی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جو جنازہ کے پیچھے لگا، اسے چاہئے کہ سب طرفوں سے پکڑے : فَإِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ ، فَوجَبَ الْحُکْم بِاَنَّ هٰذَا هُوَ السُّنَّةِ’سنت طریقہ یہی ہے۔( سنن ابن ماجہ،بَابُ مَا جَاء َ فِی شُہُودِ الْجَنَائِزِ،رقم:۱۴۷۸)،( السنن الکبرٰی للبیہقی،بَابُ مَنْ حَمَلَ الْجِنَازَۃَ فَدَارَ عَلَی جَوَانِبِہَا الْأَرْبَعَۃِ،رقم:۶۸۳۴)

یعنی اس طریقہ کار کو اختیار کرنا ہی سنت ہے۔

غور فرمائیے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول من السنۃ  کو یہاں مرفوع کے حکم میں قرار دیا ہے جبکہ ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کے قول إِنَّھَا سُنَّةٌَ  سے عدمِ اعتناء کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے مذہبی تعصب کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ جبکہ اثر ابن مسعود  رضی اللہ عنہ منقطع ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہا  کا اثر صحیح بخاری وغیرہ میں۔

محترم! اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اتنے بڑے محقق کی بات پر تعجب کا اظہار نہ کیا جائے تو اور کیا کیا جائے؟ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ قلم سے بعض سخت جملے صادر ہوئے۔ عَافَانِیَ اللّٰہُ ۔ لیکن بنظر انصاف حقائق تک رسائی حاصل کرنا سب کا فرض ہے۔ حنفی علماء میں علامہ عبدالحئی لکھنوی  رحمہ اللہ کافی حد تک انصاف پسند گزرے ہیں۔ ’’عمدۃ الرعایہ‘‘ (۱؍۲۵۳) میں انہوں نے جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے مسلک کو دلیل کے اعتبار سے قوی قرار دیا ہے اور ’’موطأ امام محمد‘‘ کے حاشیہ میں رقم طراز ہیں کہ:

’’فاتحہ پڑھنا ہی اولیٰ ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔‘‘

بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ متاخرین علماء ِ احناف نے جو جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے تو علامہ حسن الشرن بلالی نے اس کی تردید میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے:

’ اَلنَّظْمُ الْمُسْتَطَابُ بِحُکْمِ الْقِرَائَةِ فِی صَلَاةِ الْجَنَازَةِ بِاُمِّ الْکِتَابِ ۔‘( التعلیق الممجد:ص:۱۶۵)

اور جن علماءِ احناف نے فاتحہ پڑھنے کی تاویل یوں کی ہے کہ بطورِ ثنا فاتحہ پڑھی جائے، ان کی تردید میں مولانا لکھنوی فرماتے ہیں کہ اگر اس قسم کی تاویلات کا دروازہ کھول دیا جائے تو بہت سی مسنون قراء ات بھی ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ پھر یہ دعویٰ فی نفسہ باطل ہے کیونکہ نیت کا تعلق توباطن سے ہے جس پر نیت کرنے والے کے بتلائے بغیر مطلع ہونا ممکن نہیں۔ (غیث الغمام:ص:۳۱۸)

دوسری طرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عمر  رضی اللہ عنہ بلاشبہ جلیل القدر صحابہ ہیں۔ لیکن مسند روایات کے مقابلہ میں ان کے اَقوال کو اختیار کرنا دن کی روشنی میں چراغ جلانے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی صحابہ کرام کئی طرح سے عنداللہ معذور ہیں لیکن واضح دلائل ثابت ہونے کے بعد ہمارے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔

تعجب خیز بات یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  جن پر فقہ حنفی کا انحصار ہے، وہ بھی جنازہ میں سورہء فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ان کے قول پر تو عمل نہیں کرتے دوسری طرف احناف حضرت ابوہریرہ کو تو غیرفقیہ قرار دیتے ہیں (جیسا کہ نور الانوار میں ہے) اس کے باوجود جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے سلسلہ میں ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا ’’غیر فقیہ‘‘ہونا انہیں نظر نہیں آتا۔ احناف کے ہاں ان دو صحابہ کی اگر اتنی ہی عظمت ہوتی جتنی ظاہر کر رہے ہیں تو وہ انکی روایات کو کبھی ردّ نہ کرتے حالانکہ واقعات اس کے خلاف ہیں۔ حدیث المصراۃ، حدیث التسبیع اور احادیث رفع الیدین وغیرہ اس امر کے واضح شواہد ہیں۔

احناف کی نماز جنازہ کو‘‘جھٹکا‘‘سے تعبیر کرنا اگرچہ کسی حد تک سخت جملہ ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ نمازِ جنازہ میں یہ طرزِعمل جہاں خلافِ سنت ہے وہاں میت سے عدم اعتنائی کا مظہر بھی ہے۔

اب آخری بات یہ ہے کہ میرا تعاقب چونکہ ایک خاص مکتب ِفکر کے حاملین سے متعلق تھا۔ ظاہر ہے اس کے حقیقی مخاطب وہ لوگ ہیں جو اس بدعت کے موجد ہیں نہ کہ جملہ اَحناف، اگرچہ فقہی مسلک میں دیوبندی اور بریلوی سب متفق ہیں۔مجھے قوی اُمید ہے کہ یہ چند گزارشات آپ کی تشفی کے لئے کافی ہوں گی۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!

نماز جنازہ میں دیگر دعائوں کے علاوہ ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھنے یا نہ پڑھنے کے دلائل کا جائزہ :

1…’’صحیح بخاری‘‘میں حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’ لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ کُلِّهَا، …الخ،رقم:۷۵۶)

’’جس نے نماز میں فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں۔‘‘

وجہ استدلال یہ ہے کہ حدیث ہذا عموم کے اعتبار سے نماز جنازہ کو بھی شامل ہے اس لیے کہ نبی ﷺ نے اس کا نام بھی نماز رکھا ہے۔ چناں چہ فرمایا:

’ مَنْ صَلَّی عَلَی الْجَنَازَةِ ۔‘ نیز فرمایا ’ صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ۔‘ اور دوسری روایت میں ہے: ’ صَلُّوْا عَلَی النَّجَاشِیْ۔‘  امام بخاری  رحمہ اللہ  اپنی ’’صحیح ‘‘کے ترجمۃ الباب میں رقم طراز ہیں: ’ سَمَّاهَا صَلَاةً لَیْسَ فِیْهَا رَکُوْعٌ وَ لَا سُجُوْدٌ ۔‘

 ’’نماز جنازہ میں رکوع اور سجود نہ ہونے کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے اس کا نام نماز رکھا ہے۔ ‘‘

2… ’’صحیح بخاری‘‘ میں طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے:

’ صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَی جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ قَالَ: لِیَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ ۔‘ (صحیح البخاری ،بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَةِ،رقم:۱۳۳۵)

’’میں نے ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کی اقتداء میں نماز جنازہ پڑھی تو انھوں نے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تلاوت کی۔ فرمایا یہ اس لیے کہ تمھیں اس کے سنت ہونے کا علم ہوجائے۔‘‘

صحابہ کا کسی فعل کو ’من السنۃ‘ کہنا اکثر علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ  ’’کتاب الام‘‘ میں لکھتے ہیں ’’آنحضرت کے صحابہ  رضی اللہ عنہم  جب کسی فعل کو سنت کہتے ہیں تو اس سے آپ ﷺ کی سنت مراد ہوتی ہے۔‘‘

’’فتح الباری‘‘ (۲۰۴/۳) میں ہے:

’وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَی أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِیِّ سُنَّةٌ حَدِیثٌ مُسْنَدٌ۔‘

 علمائے حنفیہ نے بھی متعدد فروع اسی اصل پر قائم کی ہیں مثلاً: ہدایہ میں ہے ’’اور جب میت کی سریر اٹھائیں تو اس کے چارپائے پکڑ کر اٹھائیں اس کے ساتھ سنت وارد ہے۔‘‘ امام شافعی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں سنت

طریقہ یہ ہے کہ سریر کو دو شخص اٹھائیں۔ اگلا شخص اپنی گردن پر رکھے اور پچھلا اپنے سینہ پر۔

شارح ’’ہدایہ ابن الہمام‘‘ ، امام شافعی رحمہ اللہ  پر ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام شافعی کا یہ قول سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:

’ مَنِ اتَّبَعَ الْجَنَازَةَ فَلْیَأْخُذْ بِجَوَانِبِ السَّرِیْرِ کُلّهَا فَاِنَّهٗ مِنَ السُّنَّةِ ‘ (البنایة شرح الهدایة: ۲۴۱/۳)

’’جو شخص جنازے کے ساتھ جائے وہ باری باری اس کے سب جوانب سے پکڑ کر اٹھائے بے شک یہ مسنون ہے۔‘‘ لہٰذا اس سنت پر عمل ضروری ہے۔

3… ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے مروی ہے نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام پہلے تکبیر کہے پھر فاتحہ پڑھے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’إسْنَادُہٗ صَحِیْحٌ ‘  اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (۲۰۴/۳)

نیز’’صحیح بخاری‘‘کے ترجمۃ الباب میں حضرت حسن سے منقول ہے:

’یَقْرَأُ عَلَی الطِّفْلِ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ۔‘

’’بچے کی نماز جنازہ میں ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھی جائے۔‘‘

 ابن المنذر نے حضرت عبداللہ بن مسعود، حسن بن علی، ابن زبیر اور مسور بن مخرمہ سے نماز جنازہ میں فاتحہ کی مشروعیت نقل کی ہے۔ نیز امام شافعی رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ  اور دیگر اہل علم نمازِ جنازہ میں فاتحہ اور ایک سورہ کی قراء ت کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’سَأَلْتُ ثَمَانِیَةَ عَشَرَ صَحَابِیًا فَقَالُوْا : یَقْرَأُ ‘ رواه الاثرم حاشیه موطأ امام محمد

’’میں نے اس کے بارے میں اٹھارہ صحابہ رضی اللہ عنہم  سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا فاتحہ پڑھی جائے۔‘‘

دوسری طرف علمائے حنفیہ ہیں جو نماز جنازہ میں قراء ت کے قائل نہیں ہیں۔ چناں چہ امام محمد ’’الموطأ‘‘ میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کا اثر نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’ وَ بِهٰذَا نَأْخُذُ لَا قِرَائَةَعَلَی الْجَنَازَةِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِیْ حَنِیْفَةَ۔‘

نیز صاحب ’’ہدایہ‘‘ صفت نماز جنازہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’وَالْبِدَائَة بِالثَّنَاءِ ثُمَّ بَالصَّلَاةِ لِاَنَّهَا سُنَّة الدُّعَاء۔‘

یعنی ’’پہلے ثناء اور پھر درود شریف پڑھے۔ کیوں کہ دعاء کا یہ مسنون طریقہ ہے۔‘‘

امام محمد  رحمہ اللہ  کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے، مولانا عبدالحی ’’حاشیہ موطأ‘‘ پر لکھتے ہیں:

’’ہوسکتا ہے کہ اس سے کراہت کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ متاخرین میں سے اکثر حنفیہ نے تصریح کی ہے ‘‘

اور لکھاہے کہ ’’اگر دعاء کے طور پر ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھ لی جائے تو کچھ حرج نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے امام محمد کی مراد لزوم کی نفی ہو اور وہ جواز قراء ت کے قائل ہوں۔‘‘

  چناں چہ ہمارے متاخرین علماء میں سے حسن شرنبلالی نے اس کو اختیار کیا ہے اور انھوں نے اپنے رسالہ ’’النظم المستطاب‘‘ میں اس کی خوب وضاحت کی ہے اور جو علماء کراہت کے قائل ہیں ان کی تردید کی ہے اور لکھا ہے: ’وَهٰذَا هُوَ الْأَوْلٰی لِثَبُوْتِ ذَلِكَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ۔‘

’’اور یہی بات اولیٰ ہے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام سے ثابت ہے۔‘‘

مولانا عبدالحی نے ’’التعلیق الممجد‘‘ میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ قاضی ثناء اللہ حنفی مجددی بھی اپنے وصیت نامہ میں اس بات کے قائل ہیں۔ (فتاویٰ مفید الاحناف، ص:۲)

امام طحاوی  رحمہ اللہ  وغیرہ نے بھی اپنے مسلک کی حمایت کے لیے احادیث قراء ت کی تاویل کو ضروری خیال کیا ہے۔ چناں چہ لکھتے ہیں:

’ مَنْ قَرَأَهَا مِنَ الصّحَابَةِ یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ عَلٰی وَجْهِ الدُّعَاءِ لَا التَّلَاوَةِ ‘

’’ممکن ہے جن صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے جنازے میں ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھی انھوں نے تلاوت وقراء ت کی بجائے بطورِ دعا پڑھی ہو۔‘‘

حالاں کہ اس تاویل کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ احادیث میں تو ’فاتحہ الکتاب‘‘ کی قراء ت کے ساتھ ایک سورت کا بھی ذکر ہے جس میں علی وجہ الدعاء والی تاویل ممکن نہیں، اور پھر یہ محض دعویٰ ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ چناں چہ امام ابن حزم  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’وَهٰذَا بَاطِلٌ لِأَنَّهُمْ ثَبَتَ عَنْهُمْ الْاَمْرُ بِالْقِرَائَةِ وَ اِنَّهَا سُنَّتَهَا فَقَوْلٌ مَنْ قَالَ: لَعَلَّهُمْ قَرَءُوْهَا دَعَاء کَذِب بحت۔‘

یعنی ’’بطور دعاء والا نظریہ باطل ہے۔ کیوں کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے قراء ت کا حکم ثابت ہے اور یہ نماز جنازہ میں مسنون ہے۔ پس جن لوگوں نے کہا ہے کہ ممکن ہے انھوں نے فاتحہ کو بطور دعا پڑھا ہو سفید جھوٹ ہے۔‘‘

ان اصحابِ قیاس پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو نماز جنازہ کو نماز کہتے ہیں اس میں تکبیر، استقبال قبلہ، امامت الرجال، طہارت، سلام واجب قرار دیتے ہیں اور پھر قراء ت کو ساقط کرتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث

’ لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ کُلِّهَا، …الخ،رقم:۷۵۶) اپنے عموم کے اعتبار سے نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔

لہٰذا سابقہ دلائل کے بعد ان بے اصل تاویلات کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں۔ اب جنازے میں ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ کا پڑھنا جائز کی بجائے واجب ماننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

پھر یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حنفیہ کے نزدیک سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ  پڑھنا مسنون ہے۔ حالاں کہ جنازے میں اس کا اصلاً ثبوت نہیں ہے (جیسا کہ امام احمد بن حنبل وغیرہ نے تصریح کی ہے) اور قراء ت کی نفی کرتے ہیں جو کہ احادیث وآثار سے ثابت ہے۔ (کتاب احکام جنائز)

لہٰذا ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کی روایت کے صحیح طرق سے صرف نظر کرکے محض ضعیف طریق پر اعتماد کر بیٹھنا سراسر بے انصافی اور دَھونس ہے۔ امید ہے راہِ حق کے متلاشی کے لیے یہ چند دلائل کافی ہوں گے۔ والتوفیق بید اللہ (۱۶ جنوری ۲۰۰۹ء)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:98

محدث فتویٰ

تبصرے