سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) قبرستان لے جاتے وقت میت کے پاؤں کس طرف ہونے چاہئیں؟

  • 25141
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2551

سوال

(26) قبرستان لے جاتے وقت میت کے پاؤں کس طرف ہونے چاہئیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گاؤں کے مشرق کی طرف قبرستان ہے میت کوقبرستان میں لے جانے کے لیے میت کے پاؤں قبرستان کی طرف کریں یا خانہ کعبہ کی طرف؟ ( محمد ادریس شائق ، خطیب جامع مسجد اہل حدیث شاہ والی ڈاکخانہ فضل آباد تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس موقع پر کسی حدیث میں جہت کے تعین کی صراحت نظر سے نہیں گزری بظاہر مسئلہ ہذا میں وسعت معلوم ہوتی ہے ہاں البتہ اَولیٰ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاؤں قبلہ رُخ نہ کیے جائیں۔ قرآنِ مجید میں ہے:

﴿ذ‌ٰلِكَ وَمَن يُعَظِّم شَعـٰئِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِن تَقوَى القُلوبِ ﴿٣٢﴾... سورة الحج

’’اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو اللہ نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ(فعل) والوں کی پرہیزگاری میں ہے۔‘‘

 ظاہر ہے کہ بصورتِ دیگر پاؤں قبرستان کی طرف ہوں گے جس کے جواز میں کوئی کلام نہیں۔(وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)

تعاقب: میت کے پاؤں قبلہ رخ نہ ہونا کیا فی الواقع اولیٰ ہے(از ڈاکٹر عبیدالرحمن چوہدری)

’’الاعتصام‘‘ شمارہ ۳۸، میں ایک سوال کا جواب شائع ہوا۔ اس سلسلے میں مجھے کچھ اختلاف ہے۔ ’’الاعتصام‘‘ کی وساطت سے وضاحت درکار ہے۔۲۱ ستمبر ۱۹۹۰ء کے شمارہ ’’الاعتصام‘‘ کے ص:۸، پر ایک سوال’’میت کو قبرستان کی طرف (مشرق) لے جاتے وقت اس کے پاؤں قبرستان کی طرف کریںیا قبلہ کی طرف؟ ‘‘ کے جواب میں مرقوم ہے کہ اس موقعہ پر کسی حدیث میں جہت کے تعین کی صراحت نظر سے نہیں گزری۔ بظاہر مسئلہ ہذا میں وسعت معلوم ہوتی ہے۔ ہاں البتہ اولیٰ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاؤں قبلہ رُخ نہ کیے جائیں ۔ کیوں کہ قرآن مجید میں ہے کہ جو شخص اَدب کی چیزوں(شعائر اللہ) کی عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری میں ہے۔ ظاہر ہے کہ بصورتِ دیگر پاؤں قبرستان کی طرف ہوں گے ، جس کے جواز میں کوئی کلام نہیں۔‘‘

اس مسئلے میں پاؤں قبلہ رُخ نہ کرنے کو اولیٰ سمجھنا محل نظر ہے کیونکہ اَدب و احترام والی چیزوں کے موقعہ اور محلِّ اَدب کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اوّلاً یہ کہ قرآن و سنت میں میت کو قبرستان لے جانے کے لیے ایسے آداب کی صراحت نہیں۔ ثانیاً سلف صالحین میں بھی ایسا عمل اولیٰ تصور نہیں کیا گیا۔ اس میں بہت سی الجھنیں پیدا ہوکر پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ مثلاً

۱۔         میت کا جنازہ اٹھا کر اس حالت میں چلا جائے کہ اس کے پاؤں آگے کی طرف ہوں، کچھ عیب سا معلوم ہوتا ہے اور نزاع کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔

۲۔        شہروں کے محلوں کی گلیوں، سڑکوں کے ایچ پیچ کبھی شرقاً کبھی غرباً ہونے کی وجہ سے مشکل پیش آئے گی۔

۳۔        مدینہ منورہ یا اس علاقے کا قبرستان اگر قبلہ کی طرف ہے یا یا مخالف سمت تو اولویت ملحوظ رکھ کر جنازہ لے جانے والے کیا کریں گے؟ اگر میت کا سرہانہ کعبہ کی طرف کریں تو قبلہ اول(بیت المقدس) کی طرف پاؤں ہوں گے وہ بھی تو سوء ادبی سمجھی جائے گی اور اگر سر قبلہ اوّل کی طرف کریں تو خانہ کعبہ کی سو ادبی تصور ہوگی۔ خانہ کعبہ سے یا شہر مکہ سے۔ جنازہ اٹھا کر باہر قبرستان کی طرف لے جانے والوں نے کیا کبھی میت کے پاؤں کو قبرستان کی طرف کرنے کو اولیٰ سمجھا؟

۴۔        انسان کے پاؤں اگر مساجد کی سوء ادبی کا باعث بنتے ہوں تو پھر خانہ کعبہ کے اندر جانے یا نماز پڑھنے کی کی صورت ہوگی؟ ظاہر ہے کہ پاؤں جوتوں کی طرح الگ نہیں ہو سکتے۔ یہ تو خانہ کعبہ کی زمین پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ ایسا کرنا تو قبلہ کے آداب میں شامل ہے۔ دیگر حالت جائز نہیں۔ رسول اللہﷺ نے قبلہ رخ تھوکنے اور پیشاب پاخانے کے وقت (کھلی جگہ میں) اس طرف منہ کرنے سے پرہیز کی ہدایت فرمائی ہے۔ پاؤں کی جہت کو تو ملحوظ نہ رکھا۔

محمد رسول اللہﷺ تو مسلّمہ قابلِ احترام ہستی ہیں۔ ان کی محبت اپنی جان سے بھی زیادہ چاہیے بایں ہمہ انھوں نے کسی مجلس میں اپنی آمد پر لوگوں کو کھڑا ہوجانے کی بھی اجازت نہیں دی جیسے آج کل لوگ کسی بڑے کے اَدب کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جہلا تو اپنے پیروں مرشدوں سے رخصت ہوتے وقت اَدباً احتراماً اُلٹے پاؤں چلتے ہیں مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے ایسے آداب کو اَدب نہیں گردانا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کے پاؤں رسول اللہﷺ کی نفلی نماز کے وقت ان کے سجدے کی جگہ پر ہوتے جو سجدے کے وقت ٹانگیں سکیڑ کر پاؤں وہاں سے ہٹا لیتی تھیں۔ ایسی ہستی کے آگے پاؤںرکھنا بھی تو بے اَدبی سمجھی جاسکتی تھی۔ اگر جگہ کم تھی تو آپ کی نماز کے وقت بیٹھ سکتی تھیں۔ رسول اللہﷺ اگر ایسے آداب کوبہتر خیال فرماتے تو کبھی خاموش نہ رہتے بلکہ پاؤں آگے نہ رکھنے کی آئندہ کے لیے ہدایت فرماتے مگر ایسا ثابت نہیں۔

محولہ بالا ’’اولیٰ‘‘ یا ایسے مستحباتی قسم کے اجتہادات سے تو بدعات جنم لینے کا احتمال ہو سکتا ہے۔ محترم مفتی صاحب سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر نظر ثانی فرما کر وضاحت فرمادیں۔ (ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری، مکان:۵۴۹، گلی ۲۶، گلستان کالونی مصطفی آباد، لاہور۔۱۵)

وضاحت (از حافظ ثناء اللہ مدنی﷾)

جواباً عرض ہے کہ آپ کی وضاحت درست ہے۔﴿فَاتَّقُوْا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾(التغابن:۱۶)

ہاں البتہ اختیاری حالت میں اولیٰ وہی ہے جو فتویٰ میں ہے۔ قرآن میں ہے:

﴿ذ‌ٰلِكَ وَمَن يُعَظِّم شَعـٰئِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِن تَقوَى القُلوبِ ﴿٣٢﴾... سورة الحج

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:90

محدث فتویٰ

تبصرے