سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1082) نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا

  • 25092
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1261

سوال

(1082) نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1…  صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’ لَا صَلَاةَ لِمَن لَم یَقرَأ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ ‘(صحیح البخاری، باب وُجُوبِ القِرَائَةِ لِلاِمَامِ وَالمَامُومِ فِی الصَّلٰوةِ کُلِّهَا … الخ،رقم:۷۵۶)،(صحیح مسلم:۳۹۴)

’’جس نے نماز میں فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں۔‘‘

وجہِ استدلال یہ ہے کہ حدیث ہذا عموم کے اعتبار سے نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے، اس لیے کہ نبی ﷺ نے اس کا نام بھی نماز رکھا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

’مَن صَلّٰی عَلٰی الجَنَازَةِ ‘ نیز فرمایا: ’ صَلُّوا عَلٰی صَاحِبِكُم‘ اور دوسری روایت میں ہے:

’ صَلُّوا عَلَی النَّجَاشِی‘ امام بخاری  رحمہ اللہ  اپنی ’صحیح‘ کے (ترجمۃ الباب)میں رقمطراز ہیں: ’ سَمَّاهَا صَلَاةً لَیسَ فِیهَا رُکُوعٌ، وَ لَا سَجُودٌ‘

یعنی نمازِ جنازہ میں رکوع اور سجود نہ ہونے کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے اس کا نام نماز رکھا ہے۔

2…  صحیح بخاری میں طلحہ بن عبداللہ بن عوف کا بیان ہے:

’ صَلَّیتُ خَلفَ ابنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ  عَلٰی جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ ۔قَالَ : لِتَعلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ ‘(صحیح البخاری، بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَةِ،رقم:۱۳۳۵)

’’میں نے ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کی اقتداء میں نمازِ جنازہ پڑھی تو انھوں نے ’’سورہ فاتحہ‘‘ کی تلاوت کی۔ فرمایا، یہ اس لیے کیا ہے تاکہ تمھیں اس کے سنت ہونے کا علم ہوجائے۔‘‘

صحابہ کا کسی فعل کو ’من السنۃ، کہنا اکثر علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ  ’’کتاب الام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت کے صحابہ    رضی اللہ عنہم   جب کسی فعل کو سنت کہتے ہیں، تو اس سے آپﷺ کی سنت مراد ہوتی ہے۔

’’فتح الباري‘‘(۲۰۴/۳) میں ہے: ’ وَقَد أَجمَعُوا عَلٰی اَنَّ قَولَ الصَّحَابِی سُنَّةٌ ‘

حدیث مسند ہے علمائے حنفیہ نے بھی متعدد فروع اسی اصل پر قائم کی ہیں مثلاً: ہدایہ میں ہے ’’اور جب میت کی چارپائی اٹھائیں تو اس کے چارپائے پکڑ کر اٹھائیں۔ اس کے ساتھ سنت وارد ہے۔ امام شافعی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: سنت طریقہ یہ ہے کہ چارپائی کو دو شخص اٹھائیں۔ اگلا شخص اپنی گردن پر رکھے اور پچھلا اپنے سینہ پر۔ شارح ہدایہ ابن الہمام رحمہ اللہ  امام شافعی رحمہ اللہ  پر ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام شافعی کا یہ قول سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:

’ مَنِ اتَّبَعَ الجَنَازَةَ فَلیَأخُذ بِجَوَانِبِ السَّرِیرِ کُلِّهَا فَاِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ  ‘(سنن ابن ماجه،بَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ ،رقم:۱۴۷۸)

’’جو شخص جنازے کے ساتھ جائے وہ باری باری اس کے سب جوانب سے پکڑ کر اٹھائے۔ بے شک یہ مسنون ہے۔‘‘ لہٰذا اس سنت پر عمل ضروری ہے۔

3… ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نمازِ جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے، کہ امام پہلے تکبیر کہے، پھر فاتحہ پڑھے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   فرماتے ہیں: ’’ إسنادہ صحیح‘‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (۲۰۴/۳) نیز  صحیح بخاری کے (ترجمۃ الباب) میں حضرت حسن سے منقول ہے:

’یَقرَأُ عَلَی الطِّفلِ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ‘(صحیح البخاری،بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَة )

بچے کی نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے۔

ابن المنذر نے حضرت عبداللہ بن مسعود، حسن بن علی، ابن زبیر اور مسور بن مخرمہ سے نمازِ جنازہ میں فاتحہ کی مشروعیت نقل کی ہے۔ نیز امام شافعی، امام احمد اور دیگر اہلِ علم نمازِ جنازہ میں فاتحہ اور ایک دیگر سورت کی قرأت کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ حضرت مجاہد کہتے ہیں:

’ سَأَلتُ ثَمَانِیَةَ عَشَرَ صَحَابِیًا، فَقَالُوا : یَقرَأُ ‘رواه الاثرم حاشیه موطأ امام محمد

یعنی ’’میں نے اس کے بارے میں اٹھارہ صحابہ کرام    رضی اللہ عنہم   سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: ’’فاتحہ‘‘ پڑھی جائے۔‘‘

دوسری طرف علمائے حنفیہ ہیں، جو نمازِ جنازہ میں قرأت کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ امام محمد ’’الموطأ‘‘ میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کا اثر نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’ وَ بِهٰذَا نَاخُذُ لَا قِرَائَةَ عَلٰی الجَنَازَةِ. وَهُوَ قَولُ أَبِی حَنِیفَةِ ‘مؤطا امام مالک،( بَابُ: الصَّلاةِ عَلَی الْمَیِّتِ وَالدُّعَاء ِرقم:۳۱۱)

نیز صاحبِ ’’ہدایہ‘‘ صفت نمازِ جنازہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ وَالبِدَائَةُ بِالثَّنَاءِ، ثُمَّ بِالصَّلٰوةِ لِاَنَّهَا سُنَّةُ الدُّعَاءِ ۔‘

یعنی پہلے ثناء اور پھر درود شریف پڑھے۔ کیونکہ دعا کا یہ مسنون طریقہ ہے۔

امام محمد  رحمہ اللہ  کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا عبدالحی حاشیہ مؤطا پر لکھتے ہیں:

’’ہوسکتا ہے کہ اس سے کراہت کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ متأخرین میں سے اکثر حنفیہ نے تصریح کی ہے … اور لکھاہے کہ اگر دعا کے طور پر ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھ لی جائے تو کچھ حرج نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام محمد کی مراد لزوم کی نفی ہو، اور وہ جواز قرأت کے قائل ہوں۔ چنانچہ ہمارے متأخرین علماء میں سے حسن شرنبلالی نے اس کو اختیار کیا ہے اور انھوں نے اپنے رسالہ ’’النظم المستطاب‘‘ میں اس کی خوب وضاحت کی ہے اور جو علماء کراہت کے قائل ہیں، ان کی تردید کی ہے، اور لکھا ہے:

’ وَهٰذَا هُوَ الأَولٰی لِثُبُوتِ ذٰلِكَ عَن رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ ۔‘

’’اور یہی بات اولیٰ ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔‘‘

مولانا عبدالحی نے ’’التعلیق الممجد‘‘ میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ قاضی ثناء اللہ حنفی مجددی بھی اپنے ’’وصیت نامہ‘‘ میں اس بات کے قائل ہیں۔ فتاویٰ مفید الاحناف، ص:۲

امام طحاوی  رحمہ اللہ  وغیرہ نے بھی اپنے مسلک کی حمایت کے لیے احادیث قرأت کی تأویل کو ضروری خیال کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’ مَن قَرَأَهَاَ مِنَ الصَّحَابَةِ یَحتَمِلُ أَن یَکُونَ عَلٰی وَجهِ الدُّعَاءِ، لَا التِّلَاوَةِ‘

’’ممکن ہے جن صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم رضی اللہ عنہم نے جنازے میں سورۂ فاتحہ پڑھی انھوں نے تلاوت وقرأت کی بجائے بطورِ دعا پڑھی ہو۔‘‘

حالانکہ اس تأویل کی تردید کے لیے یہی کافی ہے، کہ احادیث میں تو ’’فاتحہ الکتاب‘‘ کی قرأت کے ساتھ ایک سورت کا بھی ذکر ہے، جس میں علی وجہ الدعا والی تأویل ممکن نہیں، اور پھر یہ محض دعویٰ ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں۔ چنانچہ امام ابن حزم  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَهٰذَا بَاطِلٌ لِأَنَّهُم ثَبَتَ عَنهُم الاَمرُ بِالقِرَائَةِ وَ اِنَّهَا سُنَّتُهَا فَقَولٌ مَن قَالَ : لَعَلَّهُم قَرَائُوهَا دُعَائًا کَذبٌ بُحتٌ ۔‘

یعنی ’’بطورِ دعا والا نظریہ باطل ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم      رضی اللہ عنہم   سے قرأت کا حکم ثابت ہے اور یہ نمازِ جنازہ میں مسنون ہے۔ پس جن لوگوں نے کہا ہے، کہ ممکن ہے انھوں نے فاتحہ کو بطورِ دعا پڑھا ہو سفید جھوٹ ہے۔‘‘

ان اصحابِ قیاس پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو نمازِ جنازہ کو نماز کہتے ہیں، اس میں تکبیر، استقبالِ قبلہ، امامتِ رجال، طہارت، سلام واجب قرار دیتے ہیں، اور پھر قرأت کو ساقط کرتے ہیں۔ حالانکہ حدیث

’لاَ صَلَاةَ اِلَّا بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ‘(صحیح البخاری، باب وُجُوبِ القِرَائَةِ لِلاِمَامِ وَالمَامُومِ فِی الصَّلٰوةِ کُلِّهَا … الخ،(رقم:۷۵۶)،(صحیح مسلم:۳۹۴ ) اپنے عموم کے اعتبار سے نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔ لہٰذا سابقہ دلائل کے بعد ان بے اصل تأویلات کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں۔ اب جنازے میں سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا جائز کی بجائے واجب ماننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

پھر یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حنفیہ کے نزدیک سُبحَانَكَ اللّٰهُمَّ پڑھنا مسنون ہے۔ حالانکہ جنازے میں اس کا اصلاً ثبوت ہی نہیں ہے (جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  وغیرہ نے تصریح کی ہے) اور قرأت کی نفی کرتے ہیں جو کہ احادیث وآثار سے ثابت ہے۔(کتاب احکام جنائز)

لہٰذا ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کی روایت کے صحیح طُرق سے صرفِ نظر کرکے محض ضعیف طریق پر اعتماد کر بیٹھنا سراسر بے انصافی اور مسلک پروری ہے۔ امید ہے راہِ حق کے متلاشی کے لیے یہ چند دلائل کافی ہوں گے۔(والتوفیق بید اللہ)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:859

محدث فتویٰ

تبصرے