سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1080) آدھی نمازِ جنازہ سری اور آدھی جہری پڑھنے کی وضاحت؟

  • 25090
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 609

سوال

(1080) آدھی نمازِ جنازہ سری اور آدھی جہری پڑھنے کی وضاحت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آدھی نمازِ جنازہ سری اور آدھی جہری پڑھنے کی وضاحت؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام شوکانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَالظَّاهِرُ اَنَّ الجَهرَ، وَالِاسرَارَ بِالدُّعَاءِ جَائِزَانِ‘ نیل الأوطار: ۴/ ۷۰

’’ظاہر یہ ہے کہ جہری اور سری دعا دونوں طرح جائز ہے۔ ‘‘

نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرا ء ت پر اعتراضات کا جائزہ

ماہنامہ ’’محدث‘‘اور ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘مؤرخہ ۱۵؍ دسمبر ۲۰۰۰ء میں جنازہ کے بعد مروّجہ دعا کے سلسلہ میں حنفی، بریلوی فتویٰ کے تعاقب میں میرا ایک فتویٰ شائع ہوا۔ اس میں ضمناً جنازہ میں سورۂ فاتحہ کی قرات کامسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ اس پر اسلام آباد سے محترم ابوبکر صدیق صاحب بایں الفاظ معترض ہیں:

‘‘بخاری میں اس سلسلہ کی کوئی مسند روایت کہاں ہے؟ اس بات کے ضعف کا آپ کو اندازہ تھا، اس لئے گول مول الفاظ استعمال کرکے قارئین کو یہ تاثر دیا گیا گویا بخاری میں کوئی مرفوع حدیث اس سلسلہ میں موجود ہے۔ اگر اس باب میں مرفوع حدیث ہوتی تو بحوالہ ابن حجر رحمہ اللہ   حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ  جیسے جلیل القدر صحابہ قراء تِ فاتحہ کیوں نہ کرتے؟‘‘

قارئین کرام! اس وقت بنیادی طور پر اس بات کا جائزہ لینا مقصود ہے کہ کیا نمازِ جنازہ میں قراء ۃ فاتحہ ثابت ہے یا نہیں؟

(۱) پہلے صحیح بخاری میں باب قراء ۃ فاتحة الکتاب علی الجنازۃ کے تحت مشارٌ الیہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ

‘‘انہوں نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی، جس میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور فرمایا (میں نے فاتحہ اس لئے پڑھی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ جنازہ میں سورہء فاتحہ پڑھنا سنت ہے‘‘...(صحیح البخاری،الجنائز،بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ عَلَی الجَنَازَةِ ،رقم:۱۳۳۵) اور حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے ایک جنازہ میں الحمد جہر سے پڑھی، پھر فرمایا:میں نے جہر سے اس لئے پڑھا ہے تاکہ تم لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ جنازہ میں الحمد پڑھنا سنت ہے۔‘‘ (مستدرك علی الصحیحین للحاکم،کِتَابُ الْجَنَائِزِ،رقم:۱۳۲۳)

(۲) اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نمازِ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ نمازی سورۂ فاتحہ پڑھے اور رسول اللہﷺ پر درود بھیجے، پھر میت کے واسطے اِخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراء ت صرف ایک ہی مرتبہ کرے، پھر سلام پھیرے۔ ملاحظہ ہو کتاب فضل الصلاۃ علی النبیﷺ اور المنتقی ابن جارود۔ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیحین کے روای ہے :کذا فی النیل۔

(۳) امام عبدالرزاق اور نسائی ;نے حضرت ابو اُمامہ  رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ’’نمازِ جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ نمازی اللہ اکبر کہے پھر سورۂ فاتحہ پڑھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے۔ پھر میت کے لئے اِخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراء ت صرف پہلی تکبیر میں کرے‘‘۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ إسنادہ صحیح ’’اس کی سند صحیح ہے‘‘(۔مصنف عبدالرزق،بَابُ الْقِرَاءَةِ وَالدُّعَاء ِ فِی الصَّلَاةِ عَلَی الْمَیِّتِ،رقم:۶۴۲۸)،( سنن النسائی،الدُّعَاءُ ، رقم:۱۹۸۹)

(۴) سنن ترمذی میں مروی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے ایک جنازہ پڑھایا تو فاتحہ پڑھی۔ طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: إنہ من السنۃ او من تمام السنۃ ’’کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ سنت ہے، یا اس سے سنت کی تکمیل ہوتی ہے۔‘‘( سنن الترمذی،بَابُ مَاجَاءََفِی القِرَاءَةِ عَلَی الجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ،رقم:۱۰۲۷)،( مصنف عبدالرزاق،بَابُ الْقِرَاءَةِ وَالدُّعَاء ِ فِی الصَّلَاةِ عَلَی الْمَیِّتِ ،رقم:۶۴۲۷)

پھر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جنازہ کو نماز سے موسوم کیا گیا ہے جس کی دلیل نبی اکرمﷺ کے یہ فرامین ہیں: من صلی علی الجنازۃ... ، صلوا علی صاحبکم، صلوا علی النجاشی اِمام بخاری  رحمہ اللہ   فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ ﷺ نے اسے نماز کہا ہے حالانکہ اس میں رکوع ہے نہ سجود، اس میں کلام نہ کرے اور اس میں تکبیر اور تسلیم ہے۔‘‘

پھر یاد رہے کہ حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  کی صحیح حدیث لا صلاۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب کا عموم نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔

اس بحث میں جواہم شے قابل التفات ہے، وہ یہ ہے کہ صحابی کا کسی فعل یا عمل کو سنت قرار دینے سے کیا وہ واقعی سنت ِنبوی قرار پائے گا؟ اس سے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ واصحاب النبی لا یقولون بالسنة والحق إلا لسنة رسول اللهﷺ ، إن شاء الله‘

’’نبی اکرمﷺ کے صحابہ کرام   رضی اللہ عنہم    سنت اور حق کا اطلاق صرف سنت رسول ﷺ کے لییہی کرتے تھے’’

اور امام نووی نے المجموع(۵؍۲۲۴) میں اسی کو صحیح مذہب قرار دیا اور کہا ہے کہ اصول میں ہمارے اصحاب میں سے جمہور علماء اور دیگر اُصولی اور محدثین اسی بات کے قائل ہیں۔ محقق علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ حنفی نے التحریر میں اسی بات کو قطعی قرار دیا ہے ۔ اس کے شارح ابن امیر حاج کہتے ہیں:ہمارے متقدمین اصحاب کا یہی قول ہے۔ صاحب ِمیزان، رافع اور جمہور محدثین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔(۲؍۲۲۴)

پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ اثباتِ سنت کے باوجود حنفیہ کا اس صحیح حدیث پر عمل نہیں حالانکہ ان کے اصول کے مطابق ہے۔ موطا امام محمد میں ہے: لاقراء ۃ علی الجنازۃ وہو قول ابی حنیفة جنازہ میں عدمِ قراء ت ہے او رامام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ متاخرین حنفیہ نے جب بنظر غائر اسی کو صحیح پایا اور صحیح حدیث کے مقابلہ میں اپنے مسلک کو مرجوح دیکھا تو اس کی تاویل انہوں نے اس طرح کی کہ فاتحہ کی قراء ت کا جواز تو ہے بشرطیکہ نمازی دعا اور ثنا کی نیت کرے۔ یہ محض اس زعم کی بنا پر ہے کہ حدیث اور قولِ امام میں تطبیق ہوسکے۔ گویا کہ امام صاحب کا قول دوسری ایک حدیث ہے حالانکہ یہ شرط(تاویل) فی نفسہ باطل ہے۔ جب ایک حدیث ثابت ہے تو پھر عمل اسی پر ہونا چاہئے۔

دوسری عجیب بات یہ ہے کہ حنفیہ کے ہاں تکبیر اولیٰ کے بعد نمازِ جنازہ میں ثنا پڑھنا جنازہ کی سنتوں میں شمار ہوتا ہے حالانکہ سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ جو شے ثابت ہے، احناف اس کا انکار کرتے ہیں اور جو ثابت نہیں، اس کے اثبات کی ناکام سعی کرتے ہیں تلک إذا قسمۃ ضیزی! علامہ ابن ہمام فتح القدیر (۱؍۴۵۹) میں لکھتے ہیں کہ

’’جنازہ میں فاتحہ نہ پڑھی جائے اِلا یہ کہ ثنا کی نیت ہو، قراء ت رسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں۔‘‘

عجب تضاد ہے، خود ہی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحابی کا قولِ ’’سنت‘‘مسند مرفوع کے حکم میں ہے جس کانبی رضی اللہ عنہ  تک اتصال ہوتا ہے جیسا کہ ابھی گزراہے پھر خود ہی اس قاعدہ کو مقامِ بحث میں ترک کردیا ہے۔

نیز ہدایہ میں ہے کہ میت کی چارپائی اُٹھاتے ہوئے چاروں اَطراف سے پکڑا جائے۔ سنت میں اسی طرح آیا ہے۔ علامہ ابن ہمام نے اس پر دلیل یہ قائم کی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جو جنازہ کے پیچھے لگا، اسے چاہئے کہ سب طرفوں سے پکڑے : فإنہ من السنۃ ، فوجب الحکم بان ہذا ہو السنۃ ’’سنت طریقہ یہی ہے۔( سنن ابن ماجه،بَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ،رقم:۱۴۷۸، السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ مَنْ حَمَلَ الْجِنَازَةَ فَدَارَ عَلَی جَوَانِبِهَا الْأَرْبَعَةِ،رقم:۶۸۳۴)یعنی اس طریقہ کار کو اختیار کرنا ہی سنت ہے۔

غور فرمائیے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول من السنۃ  کو یہاں مرفوع کے حکم میں قرار دیا ہے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول إنھا سنۃ سے عدمِ اعتناء کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے مذہبی تعصب کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ جبکہ اثر ابن مسعود  رضی اللہ عنہ منقطع ہے اور ابن عباس  رضی اللہ عنہ  کا اثر صحیح بخاری وغیرہ میں۔

محترم! اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اتنے بڑے محقق کی بات پر تعجب کا اظہار نہ کیا جائے تو اور کیا جائے؟ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ قلم سے بعض سخت جملے صادر ہوئے۔ عافانی اللہ۔ لیکن بنظر انصاف حقائق تک رسائی حاصل کرنا سب کا فرض ہے۔ حنفی علماء میں علامہ عبدالحئی لکھنوی  رحمہ اللہ کافی حد تک انصاف پسند گزرے ہیں۔ عمدۃ الرعایہ (۱؍۲۵۳) میں انہوں نے جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے مسلک کو دلیل کے اعتبار سے قوی قرار دیا ہے اور موطا ئامام محمد کے حاشیہ میں رقم طراز ہیں کہ

‘‘فاتحہ پڑھنا ہی اولیٰ ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔’’

بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ متاخرین علماء ِ احناف نے جو جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے تو علامہ حسن الشرن بلالی نے اس کی تردید میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے:

’ النظم المستطاب بحکم القراءة فی صلاة الجنازة بام الکتاب‘التعلیق الممجد:ص:۱۶۵

اور جن علماء ِ احناف نے فاتحہ پڑھنے کی تاویل یوں کی ہے کہ بطورِ ثنا فاتحہ پڑھی جائے، ان کی تردید میں مولانا لکھنوی فرماتے ہیں کہ اگر اس قسم کی تاویلات کا دروازہ کھول دیا جائے تو بہت سی مسنون قراء ات بھی ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ پھر یہ دعویٰ فی نفسہ باطل ہے کیونکہ نیت کا تعلق توباطن سے ہے جس پر نیت کرنے والے کے بتلائے بغیر مطلع ہونا ممکن نہیں۔ (غیث الغمام:ص:۳۱۸)

دوسری طرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ او رابن عمر  رضی اللہ عنہ بلاشبہ جلیل القدر صحابہ ہیں۔ لیکن مسند روایات کے مقابلہ میں ان کے اَقوال کو اختیار کرنا دن کی روشنی میں چراغ جلانے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی صحابہ کرام کئی طرح سے عنداللہ معذور ہیں لیکن واضح دلائل ثابت ہونے کے بعد ہمارے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔

تعجب خیز بات یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  جن پر فقہ حنفی کا انحصار ہے، وہ بھی جنازہ میں سورہء فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ان کے قول پر تو عمل نہیں کرتے دوسری طرف احناف حضرت ابوہریرہ کو تو غیرفقیہ قرار دیتے ہیں (جیسا کہ نور الانوار میں ہے) اس کے باوجود جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے سلسلہ میں ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا ’’غیر فقیہ‘‘ہونا انہیں نظر نہیں آتا۔ احناف کے ہاں ان دو صحابہ کی اگر اتنی ہی عظمت ہوتی جتنی ظاہر کر رہے ہیں تو وہ انکی روایات کو کبھی ردّ نہ کرتے حالانکہ واقعات اس کے خلاف ہیں۔ حدیث المصراۃ، حدیث التسبیع اور احادیث رفع الیدین وغیرہ اس امر کے واضح شواہد ہیں۔

احناف کی نماز جنازہ کو‘‘جھٹکا‘‘سے تعبیر کرنا اگرچہ کسی حد تک سخت جملہ ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ نمازِ جنازہ میں یہ طرزِعمل جہاں خلافِ سنت ہے وہاں میت سے عدم اعتنائی کا مظہر بھی ہے۔

اب آخری بات یہ ہے کہ میرا تعاقب چونکہ ایک خاص مکتب ِفکر کے حاملین سے متعلق تھا۔ ظاہر ہے اس کے حقیقی مخاطب وہ لوگ ہیں جو اس بدعت کے موجد ہیں نہ کہ جملہ اَحناف، اگرچہ فقہی مسلک میں دیوبندی اور بریلوی سب متفق ہیں۔مجھے قوی اُمید ہے کہ یہ چند گزارشات آپ کی تشفی کے لئے کافی ہوں گی۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:852

محدث فتویٰ

تبصرے