السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عید کا خطبہ سننا، خطبہ جمعہ کی طرح ضروری ہے یا جو جانا چاہے جاسکتا ہے؟ نیز کیا سامعین بوقت ِ ِ ضرورت ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عید کا خطبہ سننا ضروری نہیں۔ چنانچہ نسائی (رقم: ۱۸۵) ابن ماجہ (رقم: ۱۲۹۰) ابو دائود (رقم: ۱۱۵۵) میں عبداللہ بن سائب کی حدیث میں ہے، کہ نماز عید کے بعد نبی ﷺنے فرمایا:
’ فَمَن اَحَبَّ اَن یَجلِسَ لِلخُطبَةِ فَلیَجلِس۔ وَ اِن اَحَبَّ اَن یَّذهَبَ، فَلیَذهَبُ۔‘
’’جو خطبہ کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھ جائے اور جو جانا چاہے، چلا جائے۔‘‘
لیکن ابو دائود نے اس کو ’’مرسلِ عطائ‘‘ قرار دیا ہے۔ شیخ عبدالقادر ارنؤوط نے جامع الاصول (۶؍۱۴۶) کی تحقیق میں کہا ہے، کہ اسی طرح اس حدیث میں ابن جریح کا ’’عنعنہ‘‘ بھی ہے۔ لیکن علامہ البانی الإرواء (۳؍ ۹۷) میں فرماتے ہیں: کہ ابن جریج کی عطاء سے تمام روایات سماع پر محمول ہیں۔ سوائے اس کے جس میں تدلیس واضح ہو جائے۔ سنن کبرٰی کے حاشیہ پر ابن ترکمانی (۳؍ ۳۰۱) نے بڑے ٹھوس موقف اور مضبوط نقد کے ساتھ ’’ابودائود‘‘ کے کلام کی تردید کی ہے۔ بلاشبہ حدیث ہذا صحیح ہے جس طرح حاکم نے (۱؍ ۲۹۵ میں) کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ علامہ صنعانی سبل السلام (۳؍ ۱۸۴) میں فرماتے ہیں:
’ وَ قَد نُقِلَ الاِجمَاعُ عَلٰی عَدَمِ وُجُوبِ الخُطبَةِ فِی العِیدَینِ۔‘
’’عیدین کے خطبہ کے عدمِ وجوب پر اجماع منقول ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب