سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1046) روئیتِ ہلال میں جدید آلات اور اختلافِ مطالع

  • 25056
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1805

سوال

(1046) روئیتِ ہلال میں جدید آلات اور اختلافِ مطالع

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گذشتہ عید الفطر میں ہمارے ہاں کچھ اختلاف پیدا ہواکیونکہ حکومت نے چاند دیکھنے کا اعلان تقریباً نو بجے کے قریب کیا اور تقریباً ڈیڑھ دو سو افراد نے پیر کو عید نماز ادا کی۔ ساتھیوں کے اطمینان کے لئے چند مسائل سے آگاہی مطلوب ہے :

۱۔         جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اس کو دیکھ کر افطار کرو، اگر تم پر ابر کیا جائے تو شعبان کے ۳۰دن پورے کرو۔‘‘(صحیح مسلم،بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ لِرُؤْیَةِ الْهِلَالِ، وَالْفِطْرِ لِرُؤْیَةِ الْهِلَالِ،رقم:۱۰۸۰)

اب جیسا کہ اس متفق علیہ حدیث ِمبارکہ سے ثابت ہورہا ہے، اس کے پیش نظر کیا دوربین اور خلائی سیاروں سیٹلائٹ کے ذریعے سے حکومتی ادارے اور رویت ِہلال والے جو چاند دیکھتے ہیں، ان کی بات درست تسلیم کی جائے یا نہیں؟

۲۔        حدیث ِمبارکہ ہے:‘‘بے شک اللہ تعالیٰ نے چاند کی رویت میں تاخیر کردی (یعنی نظر نہ آنے دیا) لہٰذا وہ اسی رات کا مانا جائے جس رات کو تم نے اسے دیکھا‘‘(صحیح مسلم،بَابُ بَیَانِ أَنَّهُ لَا اعْتِبَارَ بِکُبْرِ الْهِلَالِ وَصِغَرِهِ، …الخ،رقم:۱۰۸۸) تو اگر ہم دوربین یا خلائی سیاروں سیٹلائٹ سے چاند دیکھیں تو کیا اس حدیث پر عمل ہوسکتا ہے۔

۳۔         صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت کریب رحمہ اللہ  ایک مرتبہ شام گئے جب وہ واپس مدینہ منورہ آئے تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  نے ان سے پوچھا:تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ اُنہوں نے کہا:ہم نے جمعہ کو دیکھا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے پوچھا:کیا تم نے بھی دیکھا تھا؟ اُنہوں نے کہا:ہاں (میں نے بھی دیکھا تھا) اور لوگوں نے بھی دیکھا تھا، تمام لوگوں نے روزہ رکھا اور (خلیفہ وقت) امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے کہا:لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات کو دیکھا تھا، لہٰذا ہم تو روزہ رکھتے رہیں گے جب تک ۳۰ دن پورے نہ کرلیں یا ہم۲۹ کو چاند نہ دیکھ لیں۔ حضرت کریب رحمہ اللہ  نے کہا:کیا آپ کے لئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  کی روئیت اور ان کا روزہ رکھنا کفایت نہیں کرتا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:نہیں، ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (صحیح مسلم،بَابُ بَیَانِ أَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلَالَ بِبَلَدٍ …الخ ،رقم:۱۰۸۷)

تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کے فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے لاہور والے کراچی کی یا کراچی والے پشاور کی یعنی ملک کے دور ترین علاقے والے ایک دوسرے کی شہادت پر عید کریں یا نہ کریں؟

۴۔  احادیث میں ہے کہ دو عادل مسلمان گواہی دیں تو روزہ رکھو یا موقوف کرو۔ (سنن النسائی،بَابُ قَبُولِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ عَلَی هِلَالِ شَهْرِ رَمَضَانَ …الخ،رقم:۲۱۱۶)

تو کیا کسی مشرک، بدعتی و مقلد کی گواہی پر روزہ رکھا یا موقوف کیا جاسکتا ہے۔ قرآن وحدیث سے واضح فرمائیں۔اور آپ علماے کرام سے ہی ہمیں علم ہوا کہ محدثین کرام   رضی اللہ عنہم   اس آدمی کی روایت اور شہادت قبول نہیں کرتے تھے جس نے زندگی میں ایک جھوٹ بھی بولا ہوتا۔

۵۔         اگر طاغوتی حاکم وقت عوام پر کوئی فیصلہ قرآن و حدیث کے خلاف پیش کرے تو اسے ماننا چاہئے یا نہیں؟ قرآن و حدیث سے واضح فرمائیں۔ ( خالد محمود سلفی،اوکاڑہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اثباتِ رمضان کے لئے ایک عادل مسلمان کی شہادت کافی ہے اور خروجِ رمضان وغیرہ کے لئے دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ اس سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ چاند کو دیکھنے سے مقصود ہر ایک کا دیکھنا نہیں بلکہ شرعی طور پراس کا اثبات ہے۔ کسی اسلامی ملک میں شرعی شرائط کے ساتھ رویت ِہلال کا اعلان چاہے نئی ایجادات کے ذریعہ ہو، بشرطیکہ اصل رویت میں شبہ نہ ہو تو وہ قابل اعتماد ہے۔ جس کی سب لوگوں کو تعمیل کرنی چاہئے اور اعلان میں تاخیر ِنزاع کا باعث نہیں ہونی چاہئے۔ بعض اوقات کوئی معقول وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ سعودی عرب میں بھی ایک بار ایسے ہوا اور سب علماے کرام نے اسے تسلیم کیاتہا۔

۲۔        اگر چاند نظر نہ آئے تو واقعی یہی حکم ہے اور جدید ایجادات کے ذریعہ رویت کی صورت میں بھی رویت قابل اعتبار ہے۔

۳۔         سوال میں مذکور حدیث کی شرح میں اہل علم نے بہت کچھ لکہا ہے، مگر راجح بات یہ ہے کہ ایک ملک کی رویت دوسرے ملک کے لئے کافی نہیں کیونکہ شام دوسرا ملک ہے۔ ظاہر یہی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے دوسرا ملک ہونے کی وجہ سے اعتبار نہیں کیا، رہا صوبہ سرحد کا معاملہ تو بسبب ِقرب کے وہ ایک ہی ہیں۔ جب ایک جگہ دوسری جگہ سے اتنی دور ہو کہ رویت ہلال میں فرق پڑھ سکتا ہو تو اس صورت ایک جگہ کی رویت کا دوسری جگہ اعتبار نہیں۔ لاہور کراچی یا پشاور کراچی کا رویت کے اعتبار سے زیادہ تفاوت نہیں،اس میں چنداں ترددکی ضرورت نہیں۔ سعودی عرب رقبہ کے حجم میں پاکستان سے بڑا ملک ہے لیکن اس میں ایسا کبھی اختلاف نمودار نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جملہ اُمور مرتب اور علمی قیادت کے ہاتھ میں ہیں۔ زادہا اللہ عزا وشرفا

۴۔         اثبات اور خروجِ رمضان کے لئے واقعی عادل مسلمانوں کی شہادت ہونی چاہئے، محدثین نے جن شرائط کے تحت اہل بدعت کی روایت کا اعتبار کیا ہے، وہی قریباً رویت ِہلال میں بھی ہونی چاہئیں۔ ملاحظہ ہو:(توضیح الافکار:۱۹۹/۲ تا ۲۱۲)

۵۔         طاغوتی حاکم کا حدیث من رایٰ منکم منکرًا کی روشنی میں معارضہ ہونا چاہئے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:832

محدث فتویٰ

تبصرے