سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1034) جمعہ کے دن عید ہونے پر جمعہ یا نمازِ ظہر کا حکم

  • 25044
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 607

سوال

(1034) جمعہ کے دن عید ہونے پر جمعہ یا نمازِ ظہر کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض ہے کہ ہمارے خطیب محترم نے فتویٰ دیا ہے کہ عید اور جمعہ جمع ہونے کی صورت میں عیدپڑھنے کے بعد جمعۃ المبارک کا خطبہ مع نماز جمعہ یا نمازِ ظہر معاف ہے۔ پڑھنے یا نہ پڑھنے کا اختیارہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ نوازش ہو گی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عید اور جمعہ کے اجتماع کی صورت میں بلاشہ ترکِ جمعہ کی اجازت ہے۔ لیکن اس کے ترک کی صورت میں نمازِ ظہر ہر صورت پڑھنی ہو گی، اس لیے کہ ظہر اصل ہے اور جمعہ اس کا بدل ہے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ ’’الدررالبہیۃ‘‘میں فرماتے ہیں:کہ جمعہ کا وقت ظہر کا وقت ہے۔ ’’الروضۃ الندیۃ‘‘(۱۳۷/۱) میں ہے کیونکہ جمعہ ظہر کا بدل ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ ’’ نیل الأوطار‘‘ میں امام شوکانی رحمہ اللہ  کا یہ نظریہ کہ ترکِ جمعہ کی صورت میں ظہر بھی معاف ہے، مرجوح مسلک ہے۔ جب کہ ترکِ ظہر پر صریح کوئی نص موجود نہیں ماسوائے اس کے کہ

’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما  کے بارے میں منقول ہے، کہ ان کے عہد میں عید اور جمعہ اکٹھے ہو گئے تو انھوں نے نمازِ عید پڑھائی اور اس کے بعد عصر تک گھر سے نہیں نکلے۔ (سنن أبی داؤد،بَابٌ إِذَا وَافَقَ یَومُ الجُمُعَةِ یَومَ عِیدٍ،رقم:۱۰۷۲)

 لیکن یہ ایک خاص واقعہ ہے ۔ امام شوکانی  رحمہ اللہ  نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں اصول بیان فرمایا ہے، کہ خاص واقعہ سے عام استدلال نہیں ہو سکتا۔ اس واقعہ میں احتمال ہے کہ شاید گھر میں اکیلے یا باجماعت نماز پڑھ لی ہو۔ اس بناء پر علامہ محمد بن اسماعیل الامیر رقمطراز ہیں:

’ قُلتُ وَ لَا یَخفٰی اَنَّ عَطَائًا اَخبَرَ اَنَّهٗ لَم یَخرُجِ اِبنُ الزُبَیرِ لِصَلٰوةِ الجُمُعَةِ، وَلَیسَ بِذَالِكَ نَصٌّ قَاطِعٌ اَنَّهٗ لَم یُصَلِّ الظُّهرَ فِی مَنزِلٍ فَالجَزمُ ، فَاِنَّ مَذهَبَ ابنِ الزُّبَیرِ سُقُوطُ صَلٰوةِ الظُّهرِ فِی یَومِ الجُمُعَةِ یَکُونُ عَلٰی مَن صَلَّی صَلٰوةَ العِیدِ لِهٰذِهِ الرِّوَایَةِ غَیرُ صَحِیحٍ ، لِاِحتِمَالِ اَنَّهٗ صَلَّی الظُّهرَ فِی مَنزِلِهٖ، بَل فِی قَولِ عَطَاءٍ اَنَّهُم صَلُّوا وُحدَانًا، اَی الظُّهرَ مَا یُشعِرُ بِاَنَّهٗ لَا قَائِلَ سُقُوطِهٖ، وَلَا یُقَالُ اَنَّ مُرَادَهُ صَلٰوةُ الجُمُعَةِ وُحدَانَا: فَاِنَّهَا لَا تَصِحُ اِلَّا جَمَاعَةً اِجمَاعًا، ثُمَّ القَولُ بِاَنَّ الاَصلَ فِی یَومِ الجُمُعَةِ صَلٰوةُ الجُمُعَةِ الظُّهرُ بَدَلٌ عَنهَا قَولٌ مَرجُوحٌ، بَل اَلظُّهرُ هُوَ الفَرضُ الاَصلِی اَلمَفرُوضُ لَیلَةَ الاِسرَاءِ . وَالجُمُعَةُ مُتَاخِّرٌ فَرضُهَا، ثُمَّ اِذَا فَاتَت وَجَبَ الظُّهرُ اِجمَاعًا. فَهِی البَدَلُ عَنهُ. وَ قَد حَقَّقنَاهُ فِی رِسَالَةٍ مُستَقِلَّةٍ ‘( سبل السلام :۵۳/۲)

اس عبارت سے معلوم ہوا، کہ ظہر اصل ہے اور جمعہ اس کا بدل ہے۔ جمعہ کی اجازت سے ظہر کی اجازت لازم نہیں آتی۔ پھر عطاء کا کہنا ہے، کہ تمام اسلافِ امت جو اس وقت جمعہ کے لیے حاضر ہوئے تھے، سب نے نمازِ ظہر فرداً فرداً پڑھی۔ نیز جن لوگوں پر جمعہ فرض نہیں۔ جیسے عورت، مسافراور غلام وغیرہ ان کو بھی ظہر پڑھنے کا حکم ہے اور یہ صرف اس بناء پر ہے کہ ظہر اصل ہے۔

اور ’’فتح الباري‘‘(۳۷۲/۳) میں بروایت عبد اﷲ بن عمرو ہے:

’ فَمَن تَخَطّٰی اَو لَغَا کَانَت لَهٗ ظُهرًا ‘(سنن أبی داؤدبَابٌ فِی الغُسلِ یَومَ الجُمُعَةِ، رقم:۳۴۷)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:826

محدث فتویٰ

تبصرے