سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1033) جمعہ و عید کے بعد جماعتِ ثانیہ

  • 25043
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 695

سوال

(1033) جمعہ و عید کے بعد جماعتِ ثانیہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعہ کی جماعت نکل جائے تو بعد میں آنے والے ’’جماعت ِ ثانیہ‘‘ نہیں کروا سکتے، ظہر پڑھتے ہیں تو کیا عید گاہ میں جانے پر پتہ چلے کہ نماز عید ہو چکی ہے تو اگر زیادہ آدمی جماعت سے رہ گئے ہوں وہ تمام اپنی اپنی نماز پڑھیں، دوبارہ جماعت نہیں کروا سکتے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بوقتِ ضرورت جماعت ثانیہ کا جواز ہے۔ حدیث المتصدق اس امر کی واضح دلیل ہے اور صحیح بخاری کے باب’’ فَضلُ صَلَاةِ الجَمَاعَةِ ‘‘ میں ہے :

’’وَ جَاءَ اَنَسٌ اِلٰی مَسجِدٍ قَد صُلِّی فِیهِ فَاَذَّنَ وَ اَقَامَ وَصَلَّی جَمَاعَةً‘‘(صحیح البخاری،بَابُ فَضلِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ وَکَانَ الأَسوَدُ…الخ،قبل رقم:۶۴۵)

’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ  ایک مسجد میں آئے وہاں جماعت ہو چکی تھی انھوں نے اذان اور اقامت کہہ کر باجماعت نماز پڑھی۔‘‘

امام عید سے فوت شدہ نماز عید باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ البتہ سلف میں سے بعض اس بات کے قائل ہیں کہ دو رکعتوں کے بجائے بایں صورت چار رکعتیں پڑھی جائیں۔ دیگر نے کہاہے کہ باجماعت دو رکعتیں اور اکیلا پڑھے تو چار۔ (فتح الباري:۴۷۵/۲)

لیکن ظاہر یہ ہے کہ صرف دو رکعتوں پر اکتفاء کی جائے۔ عید کو جمعہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ جمعہ کا بدل ظہر ہے جب کہ عید کا کوئی بدل نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:825

محدث فتویٰ

تبصرے