السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خطبہ یا تقریر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر کرنی چاہیے؟ بعض حضرات بیٹھ کر خطبہ اور تقریر کرتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمعہ کا خطبہ کھڑے ہوکر دینا چاہیے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
’ کَانَ ﷺ یَخطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ یَجلِسُ، ثُمَّ یَقُومُ فَیَخطُبُ قَائِمًا، فَمَن نَبَّأَكَ أَنَّهُ کَانَ یَخطُبُ جَالِسًا فَقَد کَذَبَ، فَقَد وَاللهِ صَلَّیتُ مَعَهُ أَکثَرَ مِن أَلفَی صَلَاةٍ‘(صحیح مسلم،بَابُ ذِکرِ الخُطبَتَینِ قَبلَ الصَّلَاةِ وَمَا فِیهِمَا مِنَ الجَلسَةِ،رقم:۸۶۲)،( صحیح البخاری،بَابُ الخُطبَةِ قَائِمًا،رقم:۹۲۰)
یعنی ’’نبیﷺکھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے، پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے۔ پس جس نے تجھے خبر دی کہ آپﷺ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے، اس نے جھوٹ بولا۔ اﷲ کی قسم! میں نے آپﷺ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں۔‘‘
اور صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ کعب بن عجرہ نے (کوفہ کی) مسجد میں داخل ہوکر دیکھا کہ حاکمِ کوفہ عبدالرحمن بن اُمّ الحکم بیٹھ کر خطبہ دے رہا تھا۔ کہا: اس خبیث کو دیکھو خطبہ بیٹھ کر دے رہا ہے اور اﷲتعالیٰ کا قرآن میں فرمان ہے:’’ سو یہ لوگ سودا بکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں، تو اُدھر بھاگ جاتے ہیں اور تمھیں (کھڑے کا) کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔‘‘
(صحیح مسلم،بَابٌ فِی قَولِهِ تَعَالَی:﴿وَإِذَا رَأَوا تِجَارَةً أَو لَهوًا انفَضُّوا …الخ﴾ ،رقم:۸۶۴)
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ جمعے کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہیے، بیٹھ کر پڑھنا خلافِ سنت ہے۔ بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ اِنَّهٗ شَرطٌ فِی صِحَّةِ الخُطبَةِ، وَ اِنَّهٗ مَتٰی خَطَبَ قَاعِدًا لِغَیرِ عُذرٍ، لَم تَصِح ‘(المرعاة:۳۰۸/۲)
یعنی صحتِ خطبہ کے لیے شرط ہے، کہ کھڑے ہو کر دیا جائے اور بلا عذر کسی نے بیٹھ کر خطبہ دیا تو جمعہ درست نہیں ہو گا۔ لہٰذا حنفی حضرات کا عمل خلافِ سنت ہے۔ اس کو سنت کے مطابق بنانا ضروری ہے، ورنہ خطرہ ہے کہ جمعہ برباد ہو جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب