سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1010) جمعہ فرض ہونے کی شرائط

  • 25020
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 620

سوال

(1010) جمعہ فرض ہونے کی شرائط

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعہ فرض ہونے کی شرائط قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کریں؟

۲۔        کون لوگ جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ ہیں؟

۳۔        جہاں جمعہ فرض ہے اس کے قرب و جوار میں کتنی دور کی آبادی اس میں شامل ہے جو جمعہ کی نماز میں نہ آئیں تو گناہ گار ہوں گے؟

۴۔        اہل بادیہ کون لوگ ہیں اور ان کی آبادی کتنی ہوتی ہے جن پر جمعہ فرض نہیں ہوتا؟ اور اگر وہ لوگ نمازِ جمعہ میں نہ آئیں تو گناہ گارنہ ہوں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اقامتِ جمعہ کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہاں جماعت کا وجود ہو۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ چار کے سوا ہر مسلمان پر جماعت میں جمعہ ادا کرنا حق اور واجب ہے۔صرف غلام، عورت، بچہ، بیمار اس حکم سے خارج ہیں اور جماعت کا اطلاق کم از کم دو افراد پر ہوتا ہے۔

سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے:

’ اِثنَانِ فَمَا فَوقَهُمَا جَمَاعَةٌ ‘(سنن ابن ماجه،بَاب الِاثنَانِ جَمَاعَةٌ،رقم:۹۷۲)

یعنی ’’دو اور دو سے زیادہ جماعت ہیں۔‘‘ 

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح‘‘ کی تبویب میں بھی اسی بات کو ثابت کیا ہے۔ (صحیح البخاری،بابٌ: اثنَانِ فَمَا فَوقَہُمَا جَمَاعَۃٌ،قبل رقم:۶۵۸)

۲۔        غلام عورت، بچہ اور بیمار جمعہ کے حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ جس طرح کہ طارق بن شہاب کی سابقہ روایت میں منصوص (واضح ذکر) ہے۔ ملاحظہ ہو! مشکوٰۃ وغیرہ، باب وجوبھا۔ ’’نیل الأوطار‘‘ میں امام شوکانی رحمہ اللہ  نے اسی مسلک کو ترجیح دی ہے۔

۳۔        جمہور اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر اس شخص پر جمعہ فرض ہے جسے آواز سنائی دے یا سامع (سننے والے) کی قوت میں آنا ہو۔ شہر کے اندر ہو یا باہر۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَالَّذِی ذَهَبَ إِلَیهِ الجَمهُورُ أَنَّهَا تَجِبُ عَلٰی مَن سَمِعَ النِّدَاءَ أَو کَانَ فِی قُوَّةِ السَّامِعِ سَوَاءً کَانَ دَاخِلَ البَلَدِ وَ خَارِجَهٗ وَ مَحَلُّهٗ، کَمَا صَرَّحَ بِهِ الشَّافِعِیُّ أَمَّا إِذَا کَانَ المُنَادِی صَنِیّتًا وَالأَصوَاتُ هَادِیَةٌ وَالرَّجُلُ سَمِیعًا ‘فتح الباری(۳۸۵/۳)

سنن ابو داؤد میں حدیث ہے:

’’إِنَّمَا الجُمُعَةُ عَلٰی مَن سَمِعَ النِّدَاءَ‘‘(سنن أبی داؤد، بَابُ مَن تَجِبُ عَلَیهِ الجُمُعَةُ،رقم:۱۰۵۶)

’’جمعہ صرف اس پر ہے جس کو اذان سنائی دے۔‘‘

لیکن روایت ِ ہذا کے رفع اور وقف میں اختلاف ہے۔

لیکن اس کی تائید اُمّ مکتوم کی روایت سے ہوتی ہے۔

’هَل تَسمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟قَالَ: نَعَم، قَالَ: فَاَجِب‘(صحیح مسلم،بَابُ یَجِبُ إِتیَانِ المَسجِدِ عَلَی مَن سَمِعَ النِّدَاء َ،رقم:۶۵۳)،(سنن النسائی،بَابُ المُحَافَظَةُ عَلَی الصَّلَوَاتِ حَیثُ یُنَادَی بِهِنَّ ،رقم:۸۵۰)

۴۔        جنگل کے رہائشی کو اہل بادیہ کہا جاتا ہے۔ راجح مسلک کے مطابق صرف ایک فرد پر جمعہ فرض نہیں اس سے زائد افراد کو جمعہ پڑھنا چاہیے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:813

محدث فتویٰ

تبصرے