الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!اعتکاف کا اصل مقصود تقرب الی اللہ اور اللہ کی ذات سے لو لگانا ہے۔ پس اعتکاف میں زیادہ سے زیادہ وقت عبادت الہی میں گزارنا چاہیے۔ اعتکاف کے اس مقصد کے پیش نظر معتکف کا ضرورت کے بغیر مسجد سے نکلنا روایات میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ پس اگر تو نہانا کسی ضرورت کے تحت ہو جیسا کہ غسل جنابت یا میل کچیل و پسینہ وغیرہ دور کرنے کے لیے تو اس کی اجازت ہے لیکن روٹین اور عادت پوری کرنے کے لیے صبح و شام کے غسل کے لیے مسجد سے باہر نکلنا اعتکاف کی روح و مقاصد کے خلاف طرز عمل ہے۔ شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: جس مسجد میں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہووہاں اعتکاف کیا جاسکتا ہے، اوراگراعتکاف کرنے والا ان میں سے ہو جن پر جمعہ واجب ہے تووہ جمعہ کے لیے دوسری مسجد میں جاسکتا ہے ، اس لیے اگراس مسجدمیں جہاں جمعہ ہوتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تو افضل ہے۔ اعتکاف کرنے والے کے لیے روزہ لازم نہیں ۔ اعتکاف کرنے والے کےلیے سنت یہ ہے کہ وہ دوران اعتکاف نہ تو کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے اورنہ ہی کسی کی دعوت کھانے مسجد سے باہر جائے ، اور نہ ہی اپنی گھریلوضروریات پوری کرنے کے لیے مسجدسے نکلے، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے اوراسی طرح ڈیوٹی پرجانےکےلیے مسجد سے باہر نہ نکلے کیونکہ حدیث میں ہے کہ : عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے ، اورنہ ہی کسی جنازہ کے ساتھ جائے ، اورنہ عورت کو چھوئے اورنہ ہی اس سے مباشرت کرے ، اور نہ ہی کسی کام کے لیے نکلے ، لیکن جس کام کے بغیر گزارہ نہ ہو وہ کرسکتا ہے ۔(سنن ابوداود حدیث نمبر:2473 )۔(اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 410 ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
|