کوئی پریشانی لگ جائے وقتی طور پر یا توجہ نہ ہو تو انسان پہلے اس پریشانی کو دور کرے یا نماز پڑھے؟
وقت نماز داخل ہو چکا ہے تو نماز پڑھے۔
﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾ (النساء:۱۰۳)
’’بلا شبہ مومنوں پر نماز اس کے مقررہ اوقات کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔‘‘
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ نماز پڑھاکرتے ، فوراً نماز میں لگ جاتے۔ (بو داؤد،کتاب الصلاة،باب وقت قیام النبی صلى الله عليه وسلم من اللیل ، مسند احمد)
علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات نماز میں مشغول رہے ، صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے ۔ ( احمد:۱؍۱۳۸)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو سفر میں اپنے بھائی قثم رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ نے اِنَّـا لِلّٰہِ پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر نماز شروع کر دیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں۔پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور آیت پڑھتے ہیں:
﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ [البقرۃ :۴۵]
’’صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ بڑی چیز ہے مگر ڈر رکھنے والوں پر۔‘‘ (حاکم:۲؍۲۶۹؍۲۷۰)
مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہو جاتی ہیں۔