السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کا گھر میانوالی میں ہے اس کی زرعی زمین ڈیرہ وغیرہ بھکر میں ہے۔ وہ خود لاہور اپنے لڑکے کے پاس رہتا ہے۔ کیا اس کی نما زمیانوالی اور بھکر میں سفری ہو گی یا پوری پڑھنی ہوگی؟ اس شخص نے کبھی کبھار میانوالی یا بھکر جانا ہوتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں جس شخص کا ذکر ہے یہ میانوالی اور بھکر میں نماز پوری پڑھے۔ احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔ اس بارے میں ’’حِبرُ الأُمَّۃَ‘‘ اور ’’تَرجُمَانُ القرآن‘‘ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے:
’ فَإِذَا قَدِمتَ عَلٰی أَهلٍ أَو مَاشِیَةٍ فَأَتِمَّ ‘(مصنف ابن ابی شیبة،فِی مَسِیرَةِ کَم یَقصُرُ الصَّلَاةَ:۴۴۵/۲،رقم:۸۱۴۰ ،مصنف عبد الرزاق: ۵۲۴/۲،سنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ المُسَافِرِ یَنتَهِی إِلَی المَوضِعِ الَّذِی یُرِیدُ المَقَامَ بِهِ:۱۵۵/۳، رقم:۵۴۹۴)
یعنی’’ جب تیرا اپنے اہل یا مال میں آنا ہوتو نماز پوری پڑھ۔‘‘
اور امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’ إِذَا مَرَّ بِمَزرَعَةٍ لَهٗ أَتَمَّ ‘
یعنی ’’جب کسی کا گزر اپنی زرعی زمین سے ہو تو وہ نماز پوری پڑھے۔‘‘
اور فقہائے اسلام میں سے امام احمد اور امام مالک; بھی قریباً اسی بات کے قائل ہیں کہ جہاں کسی کا گھر ہو یا مال وغیرہ ہو وہاں نماز پوری پڑھی جائے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو! (مغنی ابن قدامہ:۱۳۵/۲)
اور صاحب المنتقٰی نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:
’ بَابُ مَنِ اجتَازَ فِی بَلَدٍ فَتَزَوَّجَ فِیهِ أَولَهٗ فِیهِ، زَوجَةٌ، فَلیُتِمَّ ‘
’’ جس کا گزر اس شہر سے ہو جہاں اس نے شادی کی ہے یا وہاں اس کی بیوی ہے تو وہ نماز پوری پڑھے۔‘‘
اس تبویب کے ضمن میں ایک مرفوع روایت بیان ہوئی ہے، جس کے الفاظ یوں ہیں :
’ مَن تَأَهَّلَ فِی بَلَدٍ فَلیُصَلِّ صَلَاةَ المُقِیمِ‘مسند احمد، رقم:۴۴۳
یعنی ’’جس نے کسی شہر میں نکاح کیا اُسے چاہیے کہ مقیم کی نمازپڑھے۔ ‘‘
لیکن امام بیہقی نے اس حدیث پر انقطاع کاحکم لگانے کے علاوہ عکرمہ بن ابراہیم راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ هٰذَا الحَدِیثُ لَا یَصِحُّ، لِأَنَّهٗ مُنقَطِعٌ۔ وَ فِی رُوَاتِهٖ مَن لَا یُحَتَجُّ بِهٖ‘( فتح الباری:۵۷۰/۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب