سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(943) اقامت کا ارادہ نہ رکھنے والے مسافر کا بلا تحدید قصر کرنا

  • 24952
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1457

سوال

(943) اقامت کا ارادہ نہ رکھنے والے مسافر کا بلا تحدید قصر کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مکرمی ومحترمی حافظ ثناء اﷲ صاحب مدنی… ہفت روزہ’’الاعتصام‘‘ مؤرخہ ۱۷۔مارچ۔۱۹۹۵ء  کے صفحہ ۱۱،کالم:۲ میں نمازِ قصر کے متعلق مرقوم ہے کہ میکے اور سسرال کے ہاں جہاں عورت کا حق ِ ملکیت موجود ہو احتیاط کا تقاضا ہے کہ وہاں قصر نہ کرے بصورتِ دیگر جواز ہے۔

غالباً ملکیت سے مراد غیر منقولہ جائیداد ہوگی۔ اس ضمن میں ہمیں اصولی طور پر تو یہی معلوم ہو سکا ہے کہ نمازِ قصر کا تعلق بلحاظِ فاصلہ معروف سفر اور حضر سے ہی ہے۔ حقِ ملکیت والی بات سنت نبوی سے معلوم نہیں۔ اگر ایسی کوئی حدیث موجود ہے تو آگاہ فرما کر ممنون فرمائیں! اس سلسلے میں درج ذیل مختلف پہلوؤں سے مسئلہ پر غور فرما کر محاکمہ صادر فرمائیں!

۱۔         مسافر کے لیے قصر وہاں ہو گی جہاں مستقل رہائش نہیں ہو گی إلا یہ کہ قیام کا حدیث میں مذکور وقت حدسے زیادہ کاارادہ ہو یا وقتِ حد سے تجاوز کر جائے۔

۲۔        ایک شخص کی مستقل رہائش لاہور میں ہے مگر اس کی غیر منقولہ ملکیت پشاور، راولپنڈی، حیدر آباد، کراچی وغیرہ(بشمول سسرال اور میکے) میں ہے تو وہاں کے سفر میں قصر ہونی چاہیے، پوری نماز کا بھی جواز ہے۔ مگر احتیاط والی بات محلِ نظر ہے۔

۳۔        ایک شخص کی غیر منقولہ ملکیت کوئی نہیں مگر اس کی ملکیت ایک کار ہے، وہ اس پر سفر کر تا ہے تو کیا ہر سفر میں اسے پوری نماز ادا کرکے احتیاط والا پہلو اختیار کرنا ہو گا؟

۴۔        ایک شخص لاہور کا مستقل رہائشی ہے۔ میری معلومات کے مطابق وہ کراچی کے سفر کے لیے روانہ ہوتے ہی ( ریل، بس یا ہوائی جہاز سے) چند میل سے قصر کر سکتا ہے؟

۵۔        بڑے شہر، بیسیوں میل وسیع ہیں۔ کوئی شخص اپنی رہائش گاہ سے دوسری جگہ بیس میل کے فاصلے پر (اسی شہر میں) پہنچتا ہے تو کیا وہاں قصر کر سکے گا؟ اگر ایسا نہیں تو اس شہر میں سفر کہاں سے شروع تصور ہو گا؟ آج کل بڑے شہروں کے مضافات دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں اور بلدیہ کی حدود بھی کئی دفعہ بدل دی جاتی ہے اور ایسا بھی ہے کہ لاہور شہر اور اس کے مضافات دو اضلاع۔(لاہور اور شیخوپورہ) میں منقسم ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہوتا یوں ہے کہ سائلین بعض مسائل متعدد دفعہ دریافت کرتے ہیں تو ہر دفعہ تشریح و تفصیل بیان کرنی مشکل ہوتی ہے، اس لیے بسا اوقات جواب بالاختصار دیا جاتا ہے۔ زیرِبحث مسئلہ میں بھی صورت حال کچھ اسی طرح ہے۔ چنانچہ ’’الاعتصام ۱۲/اکتوبر/۱۹۹۰ء میں مسئلہ ہذا کی وضاحت شائع ہو چکی تھی۔ اس لیے بعد میں شائع ہوا تو مختصر جواب پر اکتفا کیا گیا ۔

اسی تشریح کو اب دوبارہ ملاحظہ فرمائیں!  حبرالامۃ اور ترجمان القرآن حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما  کا قول ہے:’’ فَإِذَا قَدِمتَ عَلٰی أَهلٍ أَو مَاشِیَةٍ فَاَتِمّ ‘‘

یعنی جب تیرا اپنے اہل یا مال میں آنا ہو تو نماز پوری پڑھ۔( مصنف ابن ابی شیبہ، فِی مَسِیرَۃِ کَمْ یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ ، رقم:۸۱۴۰ ،مصنف عبدالرزاق، (بَابُ: فِی کَمْ یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ، رقم:۴۲۹۷) ،( سنن کبریٰ للبیہقی: باب المسافر ینتھی الی المواضع الذی یرید المقام،رقم:۵۴۹۴)

اور امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’ إِذَا مَرَّ بِمَزرَعَةٍ لَهٗ أَتَمَّ ‘‘

یعنی ’’جب کسی کا گزر اپنی زمین سے ہو تو وہ نماز پوری پڑھے۔‘‘ اور فقہائے اسلام میں سے امام احمد اور امام مالک بھی قریباً اسی بات کے قائل ہیں کہ جہاں کسی کا گھر ہو یا مال وغیرہ ہو وہاں نماز پوری پڑھی جائے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو!(مغنی ابن قدامہ:۱۳۵/۲) اور صاحب المنتقٰی نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:

’ بَابُ مَنِ اجتَازَ فِی بَلَدٍ فَتَزَوَّجَ فِیهِ ، أَولَهٗ فِیهِ زَوجَةٌ فَلیُتِمَّ ‘

یعنی ’’جس کا گزر اس شہر سے ہو جہاں اس نے شادی کی ہے یا وہاں اس کی بیوی ہے تو وہ نماز پوری پڑھے۔‘‘

اس تبویب کے ضمن میں ایک مرفوع روایت بیان ہوئی ہے۔ جس کے الفاظ یوں ہیں:

’ مَن تَأَهَّلَ فِی بَلَدٍ فَلیُصَلِّ صَلَاةَ المُقِیمِ‘(مسند امام احمد ،رقم: ۴۴۳)

یعنی ’’جس نے کسی شہر میں نکاح کیا اُسے چاہیے کہ مقیم کی نمازپڑھے۔‘‘

لیکن امام بیہقی رحمہ اللہ  نے اس حدیث پر انقطاع کے حکم کے علاوہ عکرمہ بن ابراہیم راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ هٰذَا الحَدِیثُ لَا یَصِحُّ، لِأَنَّهٗ مُنقَطِعٌ : وَ فِی رُوَاتِهٖ مَن لَا یُحتَجُّ بِهٖ ‘(فتح الباري:۵۷۰/۲)

انہی دلائل اور دیگر بعض کے پیشِ نظر میں نے اپنے بعض فتووں میں لفظ احتیاط کا استعمال کیا ہے۔ ورنہ یہ بات تو بدیہی ہے کہ قصر کا تعلق سفر سے ہے لیکن یہاں جو شییٔ محلِ تردّد ہے وہ یہ ہے کہ بایں صورت اس شخص پر لفظ مسافر کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں بعض کے نزدیک مسافر کے بجائے مقیم کہلانے کا زیادہ حق دار ہے اس بناء پر ان کے نزدیک اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے اور جہاں تک دورانِ سفر قصر کا جواز ہے تو بلا ریب قصر درست ہے۔ منقولہ جائیداد گاڑی وغیرہ کا اعتبار سلف سے ثابت نہیں ہے اور آغازِ سفر کے بارے میں اصل یہ ہے کہ جب انسان محسوس کرے کہ اب وہ مسافر بن گیا ہے تو قصر شروع کردے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  وغیرہ کے مسلک کے مطابق قصر کے لیے سفر کی کوئی حد بندی نہیں۔ صرف عرف ہی کافی ہے، اور امام ابن حزم رحمہ اللہ  صرف ایک میل پر قصر کے قائل ہیں جب کہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے مدینہ سے مکہ کا قصد کیا تو ذوالحلیفہ میں قصر کی تھی۔ اس کی مسافت میں لوگوں کے مختلف اقوال ہیں بعض نے تین میل ذکر کیا ہے۔ دوسری طرف حضرت انس رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے تین میل یا تین فرسخ(۹میل) بیان فرمایا۔ یہاں بطورِ احتیاط بعض اہل حدیث کا مسلک ہے کہ اگر کسی نے نو میل سفر کرنا ہو تو وہ قصر کر سکتا ہے کم میں نہیں۔ تین کا عدد بھی نو کے اندر داخل ہے جب کہ تین کو لینے کی صورت میں نو کا عدد چھوٹ جاتاہے جو درست نہیں۔

الحاصل: مسافر جب تک سفر میں کسی جگہ اقامت کا ارادہ نہ کرے تو بلا تحدید وہ قصر کر سکتا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں:

’ ثُمَّ اَجمَعَ أَهلُ العِلمِ عَلٰی أَنَّ لِلمُسَافِرِ أَن یَقصُرَ مَا لَم یَجمَع إِقَامَةً ، وَ  إِن أَتٰی عَلَیهِ سِنُونَ ‘سنن ترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی کَم تُقصَرُ الصَّلاَةُ ،(رقم:۵۴۸ مع تحفة الاحوذی:۱۱۴/۳)

یعنی سب اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کرے اگرچہ کئی سال گزر جائیں اسے قصر کی اجازت ہے۔

عازمِ سفر انسان جب تک محلِ اقامت میں واپس نہیں آجاتا وہ مسافر ہی شمار ہو گا۔

اس ساری بحث میں نقطۂ تأمل یہ ہے کہ آدمی کب مسافر بنتا ہے؟ اور کب سفری حالت سے فارغ سمجھا جاتا ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ باعتبارِ عرف اس پر سفر کا اطلاق ہو گا۔ دورانِ سفر بعض حالتیں ایسی ہیں کہ اس سے لفظ سفر کا اطلاق زائل ہو جاتا ہے۔ بالخصوص راجح مسلک کے مطابق جب کسی جگہ چار دن سے زائد اقامت(ٹھہرنے) کی نیت کرلے تو وہ مقیم قرار پائے گا کیونکہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر نبیﷺ بہ نیت اقامت چار ذوالحجہ کو مکہ میں داخل ہوئے اور آٹھ تاریخ کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ مناسکِ حج کی تکمیل کریں۔

یا وہاں اس کی غیر منقولہ جائیداد یا سسرال ہو تو بایں صورت بھی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ قصر نہ کرے، کیونکہ ایسا شخص مسافرنہیں مقیم کہلائے گا۔ واضح ہو کہ یہ امر ان لوگوں کے نزدیک ہے جو اس بات کے قائل ہیں اور جن اہلِ علم نے اس علت کی طرف التفات نہیں فرمایا، ان کے نزدیک یہ بدستور مسافر ہی کہلائے گا۔

بہر صورت نبیﷺ سے کوئی نص صریح صحیح ثابت نہ ہونے کی بناء پر مسئلہ ہذا اجتہادی ہے۔ جس پر کسی کو اطمینان ہو اس پر عمل کی گنجائش ہے ۔ اجتہادی مسائل میں محدثین کا مسلک تلطّف (نرمی) کا ہے تَصَلُّب (سختی) کا نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں جا بجا اس مسلک کو اختیار کیا ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:779

محدث فتویٰ

تبصرے