سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(934) دورانِ سفر مکمل نماز پڑھنے کا حکم

  • 24943
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 887

سوال

(934) دورانِ سفر مکمل نماز پڑھنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محلّٰی ابن حزم جلد نمبر۴،ص:۲۶۶، میں حدیث ہے:

’ عَن نَافِعٍ عَنِ ابنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: صَلٰوةُ السَّفرِ رَکعَتَانِ ، مَن تَرَكَ السُّنَّةَ فَقَد کَفَرَ۔‘

’’سفر کی نماز دو رکعت ہے جس شخص نے یہ طریقہ شرعیہ چھوڑا( اور نماز پوری پڑھی) تو وہ کافر ہوا۔‘‘

اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ سفر صرف دو رکعت ہے سوائے مغرب کے۔ اب جو شخص اس نماز کو ناقص تصور کرکے پوری پڑھتا ہے ، وہ قانون شرعی کو بدلتا ہے اور یہ کفر ہے، ہمیشہ دوگانہ پڑھو۔

اس حدیث کی استنادی حیثیت کیا ہے ، نیز کیادورانِ سفر مکمل نماز پڑھنے والا واقعی کافر ہے ؟ کیا محدثین کی یہی رائے ہے ؟ حضرت عثمان اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا سفر میں قصر نہ کرنا ثابت ہے یا نہیں؟ نیز کیا مولانا عبد القادر حصاروی مرحوم کا یہ بیان درست ہے کہ نماز دوگانہ ہی پڑھنی چاہیے۔ تفصیلی جواب سے نوازیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ بالا حدیث میں لفظ’کفر‘ محض ڈانٹ اور سختی پر محمول ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے بہت سے شواہد ہیں ۔چنانچہ صحیح بخاری میں

’بَابُخَوفِ المُومِنِ مِن أَن یَحبَطَ عَمَلُه وَ ھُوَ لَا یَشعُرُ ‘ کے تحت حدیث ہے کہ ’ سِبَابُ المُسلِمِ فُسُوقٌ، وَ قِتَالُهٗ کُفرٌ ‘(صحیح البخاری،بَابُ خَوْفِ المُؤْمِنِ مِنْ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُهُ وَهُوَ لاَ یَشْعُرُ ،رقم:۴۸)

’’مسلمان کو گالی گلوچ کرنا فسق و فجور اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘

اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  رقمطراز ہیں:

’ وَلَم یُرِد حَقِیقَةَ الکُفرِ الَّتِی هِی الخُرُوجِ عَنِ المِلَّةِ، بَل أُطلِقَ عَلَیهِ الکُفرُ مُبَالَغَةً فِی التَّحذِیرِ مُعتَمِدًا عَلٰی مَا تَقَرَّرَ مِنَ القَوَاعِدِ أَن مِثلَ ذٰلِكَ لَا یُخرِجُ عَنِ المِلَّةِ ‘(فتح الباری:۱۲/۱)

’’اس سے مقصود ملت سے خارج کردینے والا کفر نہیں، بلکہ تحذیر اور وعید میں مبالغے کے لیے اس پر کفر کااطلاق ہوا ہے۔ معتمد قواعد(قواعد پر اعتماد کرنے) کی بناء پر اس طرح کے اعمال سے آدمی ملت سے خارج قرار نہیں پاتا۔‘‘

اسی طرح ’ ’’صَحِیحُ البُخَارِی‘‘ بَابُ الاِنصَاتِ لِلعُلَمَائِ ‘ کے تحت الفاظ حدیث یوں ہیں:

’ لَا تَرجِعُوا بَعدِی کُفَّارًا یَضرِبُ بَعضُکُم رِقَابَ بَعضٍ ‘(صحیح البخاری،بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاء ِ،رقم:۱۲۱)

’’میرے بعد کفر کی طرف مت لوٹنا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔‘‘

اس کی توضیح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَالمَعنٰی لَا تَفعَلُوا فِعلَ الکُفَّارِ فَتَشبُهُوهُم فِی حَالَۃِ قَتلِ بَعضِهِم بَعضًا ‘(فتح الباری:۲۱۷/۱)

مفہوم اس کا یہ ہے کہ ایک دوسرے کے قتل میں کفار سے مشابہت مت اختیار کرنا۔

ان روایات سے مسئولہ روایت کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ پھر علمائے سلف سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ سفر میں اِتمام ( نماز پوری پڑھنے) کی صورت میں کفر لازم آتا ہے۔حدیث ہذا کے راوی

حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کو لیجیے ان سے کسی نے دریافت کیا کہ مسافر، مقیم امام کی اقتداء میں دو رکعتیں پا لیتا ہے تو کیا اس کو دو رکعتیں کافی ہو سکتی ہیں یا پوری پڑھے؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا: کہ پوری پڑھے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی،بَابُ الْمُقِیمِ یُصَلِّی بِالْمُسَافِرِینَ وَالْمُقِیمِینَ،رقم: ۵۵۰۳) بسندِ صحیح ثابت ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں حضرت عثمان کی اقتداء میں نماز پوری پڑھی تو فرمایا:

’ فَلَیتَ حَظِّی مِن أَربَعِ رَکَعَاتٍ رَکعَتَانِ ‘(صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًی،رقم:۱۰۸۴)

’’کاش چار رکعتوں سے دو رکعتیںہی میرے حصے میں آجائیں۔‘‘

اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

’ وَهٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّهٗ کَانَ یَرَی الإِتمَامَ جَائِزٌ وَ إِلَّا لَمَا کَانَ حَظٌّ مِنَ الأَربَعِ وَ لَا مِن غَیرِهَا ، فَإِنَّهَا کَانَت فَاسِدَةٌ کُلُّهَا (‘فتح الباری:۵۶۴/۲)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ  کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک پوری نماز پڑھنا جائز تھا ، بصورتِ دیگر ساری فاسد ہوتی تھی۔(مسند احمد:۱۰۸/۲) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ  سے مرفوع روایت میں ہے:

’ إِنَّ اللّٰهُ یُحِبُّ أَن تُوتٰی رُخصَةٌ کَمَا یَکرَهُ اَن تُؤتٰی مَعصِیَتَهٗ۔‘ (مسند احمد،رقم:۵۸۶۶)

’’ اﷲ کو پسند ہے کہ اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے، جس طرح اسے اپنی نافرمانی ناپسند ہے۔‘‘

اس حدیث میں قصر کا نام ’’رخصت‘‘ رکھا گیا ہے، جو ’’عزیمت‘‘ کی ضد ہے۔ اس بناء پر زیرِبحث حدیث کی سابقہ تاویل درست ہے۔ بالخصوص جب کہ دونوں روایتوں کے راویابن عمر رضی اللہ عنہما  ہیں۔ حضرت عائشہ اور عثمان رضی اللہ عنہما  سے بحالتِ سفر نماز پوری پڑھنا صحیح بخاری میں ثابت ہے:

’بَابٌ یَقصُرُ إِذَا خَرَجَ مِن مَوضِعِهٖ۔، مسئلہ ہذا کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو! (تفسیر اضواء البیان(۳۱۷/۱۔۳۲۱)

سوال میں مشارٌ الیہ روایت حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ  ’’ مجمع الزوائد‘‘(۲/۱۵۴،۱۵۵) میں بطریقِ مورق ذکر کرکے فرماتے ہیں:’رِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِیحِ۔، اس حدیث کے سب راوی صحیح کے راوی ہیں۔

یعنی صحیح کے راویوں کی صفات کے حامل ہیں۔

اَلمُحَلّٰی کی روایت کے بارے میں علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ أَمَّا هٰذَا الحَدِیثُ بِهٰذَا اللَّفظِ مَرفُوعًا لَم أَجِدهُ إِلَّا فِی هٰذَا المَوضِعِ وَهُوَ أَشبَهُ بِأَن یَّکُونَ مِن کَلَامِ ابنِ عُمَرَ ، کَمَا سَیَأتِی مَوقُوفًا ۔ وَ یَحتَمِلُ أَن الخَطَأَ فِی رَفعِهٖ مِن مُحَمَّدِ بنِ الصَّبَاحِ، أَو مِن شِیخِهٖ عَبدِ اللّٰهِ بنِ رَجَاءَ۔‘

’’یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ مرفوعاً مجھے نہیں مل سکی ما سوائے اس مقام کے۔ قرینِ قیاس ہے کہ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما  کا کلام ہو، جس طرح موقوف روایت عنقریب آرہی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے رفع میں محمد بن الصباح یا اس کے شیخ عبد اﷲ بن رجاء کی غلطی ہو۔‘‘

علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ  حاشیہ نمبر ۳ میں فرماتے ہیں: کہ عبد اﷲ بن رجاء مکی ثقہ ہے۔ تاہم امام احمد رحمہ اللہ  نے فرمایا ہے: کہ اہلِ علم نے کہا ہے: اس کی کتابیں ضائع ہو گئیں۔ پھراپنے حافظے سے لکھا کرتا تھا۔ اس بناء پر اس کی کئی روایات منکر ہیں۔

جہاں تک مولانا حصاروی مرحوم کے نقطۂ نظر کا تعلق ہے تو اس سے موافقت مشکل امر ہے۔ تفصیل اضواء البیان کے سابقہ حوالہ میں ملاحظہ فرمائیں!

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:773

محدث فتویٰ

تبصرے