سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(908) کیا قنوت ِ نازلہ منسوخ ہو چکی ہے؟

  • 24917
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 641

سوال

(908) کیا قنوت ِ نازلہ منسوخ ہو چکی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تفسیر ابن کثیر میں قصۂ احد کے ضمن میں ذکر کردہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیت کریمہ ﴿لَیسَ لَكَ مِنَ الأمرِ شَیئٌ﴾(اٰل عمرٰن:۱۲۸)  کے نزول کے بعد قنوتِ نازلہ ترک کر دی تھی، تو کیا آج بوقتِ ضرورت نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور کے قول کے مطابق ’’غزوۂ احد‘‘ ماہِ شوال سن تین ہجری میں ہوا ہے۔ جب کہ واقعہ ’’بئرمعونہ‘‘ سن چار ہجری کے شروع میں پیش آیا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے:

’’وَذٰلِكَ بَدئُ القُنُوتِ‘‘ ’’قنوت ‘‘کا آغاز اس واقعے کی وجہ سے ہوا۔‘‘

اس سے معلوم ہوا، کہ آیت ﴿لَیسَ لَكَ مِنَ الأمرِ شَیئٌ﴾(اٰل عمرٰن:۱۲۸)  کا تعلق نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ’’غزوۂ احد‘‘ میں زخمی ہونے سے ہے۔ جس طرح کہ روایات میں بھی تصریح موجود ہے، کہ یہی قصہ آیت کا سبب نزول ہے۔ جن روایات میں آیت مذکورہ کی شانِ نزول قصۂ ’’بئر معونہ‘‘ یا ’’قصۂ رعل‘‘ و’’ذکوان‘‘ کو بتایا گیا ہے۔ وہ درست نہیں، کیونکہ یہ واقعات اُحد کے بعد پیش آئے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے، کہ سبب بعد میں پیدا ہو، اور آیت کا نزول پہلے ہو چکا ہو؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: درست بات یہ ہے، کہ اس آیت کی شان نزول، وہ لوگ ہیں جن پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ’’قصۂ احد‘‘ کے سبب بد دعا کی تھی۔ (فتح الباری: ۷/ ۳۶۶)

اصل بات یہ ہے، کہ اس حدیث میں ’’ادراج‘‘ ہے، یعنی ’’حتّٰی أنزل اللّٰه‘‘ کے الفاظ زُہری کی روایت میں ’’عَمَّن بَلَغَه‘‘ (یعنی جس سے ان کو یہ روایت پہنچی ہے) ’’منقطع‘‘ ہے، امام مسلم نے یونس کی روایت میں اس بات کی تصریح کی ہے، زہری کا یہ کہنا، کہ ’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے، کہ جب یہ آیت نازل ہوئی، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ’’قنوت‘‘ پڑھنا ترک کر دی۔‘‘ یہ بلاغ درست نہیں۔وجہ وہی ہے، جو پہلے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ ہو!  (فتح الباری: ۲۸۶/۸)

ان دلائل سے معلوم ہوا، کہ بوقت ِِ ضرورت نمازوں میں ’’قنوتِ نازلہ‘‘ پڑھی جا سکتی ہے۔ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔

وضاحت:مطلب یہ ہے، کہ جب ’’غزوۂ اُحد‘‘ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا سَرمبارک زخمی ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ’’قنوت‘‘ نہیں کی تھی، بلکہ یہ فرمایا: کہ

’ کَیفَ یُفلِحُ قَومٌ شَجُّوا رَأَسَ نَبِیِّهِم‘(صحیح مسلم،بَابُ غَزوَةِ أُحُدٍ،رقم:۱۷۹۱)

یعنی ’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکے گی، جس نے اپنے پیغمبر کا سر زخمی کیا۔ ‘‘

اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا :

﴿لَیسَ لَكَ مِنَ الأَمرِ شَیئٌ أَو یَتُوبَ عَلَیهِم﴾ (اٰل عمرٰن:۱۲۸)  کہ معاملات کا اختیار آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس نہیں۔ اللہ چاہے تو اُن کی توبہ بھی قبول کر سکتا ہے۔ یعنی جب اس موقعے پر آپ نے قنوت کی ہی نہیں، تو منع کرنے کا کیا مطلب؟ آپ نے تو قنوت کا آغاز ہی بعد میں، یعنی سن چار ہجری میں کیا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:758

محدث فتویٰ

تبصرے