سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(900) نماز کے رکوع اور سجود اور قنوت وتر میں غیر عربی دعائیں کرنا

  • 24909
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 861

سوال

(900) نماز کے رکوع اور سجود اور قنوت وتر میں غیر عربی دعائیں کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱) نماز میں رکوع ، سجدہ کے دوران اور تشہد میں سلام سے پہلے غیر عربی زبان میں دعا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟

(۲)       قنوت نازلہ میں عربی یا غیر عربی زبان میں اپنی طرف سے دعائیں کی جا سکتی ہیں؟ کیا عربی زبان میں اپنی طرف سے قنوت نازلہ کی دعائیں’’ کلام الناس‘‘ میں داخل نہیں؟

(۳)      کیا مندرجہ بالا تمام جگہوں پر غیر عربی زبان میں دعائیں کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فرض نماز یا نفلی نماز عاجز یا غیر عاجز کا کوئی فرق ہے؟

(۴)      آپ نے گزشتہ کسی شمارے میں بعد از رکوع ہاتھ نہ باندھنے کے بارے میں فرمایا تھا کہ قبل از رکوع پر لفظ قیام کا اطلاق ہوا ہے اور بعد از رکوع پر اعتدال کا اطلاق ہوا ہے جب کہ صحیح مسلم میں بعد از رکوع پر ’حَتّٰی یَستَوِی قَائِمًا‘  کا اطلاق ہوا ہے اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) نماز کے دوران دین و دنیا کی بہتری کے لیے کوئی سی دعا بھی ہو سکتی ہے ۔ بشرطیکہ زبان عربی ہو اور با معنی مرتب کلمات ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو، کہ کلمات کی تبدیلی سے معانی منقلب ہو کر نماز باطل ہو جائے اور ثواب کی بجائے سزا کا مستحق ٹھہرے۔ (أَعَاذَنَا اللّٰهُ مِنھَا)

حدیث میں ہے:

’ صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی‘(صحیح البخاری،بَابُ الأَذَانِ لِلمُسَافِرِ، إِذَا کَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَکَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمعٍ…الخ، رقم:۶۳۱)

 ’’نماز (ٹھیک) اس طرح پڑھو، جس طرح تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

یہ بات اظہر من الشمس ہے، کہ آج تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں ہو سکا کہ بحالتِ نماز غیر عربی میں کوئی دعا کی ہو۔ دوسری زبانوں میں نماز کے دوران دعا کرنا ’’مداخلت فی الدین‘‘(دین میں دخل اندازی) کے زمرے میں آتا ہے، جو کسی کے لیے جائز نہیں۔ پھر تعامل امت بھی اسی کے مطابق ہے۔

(۲)       ’’قنوتِ نازلہ‘‘ کی صورت میں حسب موقع دعا اور مناجات کا اظہار کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں صلاۃ الکسوف کے منظر میں ہے:

’و دَنَت مِنَّی النَّارُ حَتّٰی قُلتُ :اَی ربِّ، وَ اَنَا معَهھُم؟‘(صحیح البخاری،بَابُ مَا یَقُولُ بَعدَ التَّکبِیرِ، رقم:۷۴۵، فتح الباری:۲۳۱/۱)

’’آگ میرے اتنے قریب ہو گئی کہ میں نے کہا: اے پروردگار! کیا میں ان کے ساتھ ہوں۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا، کہ کیفیت نازلہ عمومِ حدیث ’لا تَصلُحُ فِیهَا مِن کَلَامِ النَّاسِ‘ سے مستثنیٰ ہے۔ لیکن بحالتِ نماز غیر عربی میں دعا اور التجا کرنا ثابت نہیں۔ دلیل پہلے گزر چکی۔

(۳) جس چیز کا نام نماز ہے، اس میں غیر عربی میں دعا نہیں ہو سکتی۔ (و قد تقدم دلیلہ)

(۴)      شریعت میں علی الاطلاق قیام کا اطلاق صرف پہلے قیام پر ہے۔ رکوع کے بعد والی کیفیت پر، اگرچہ بعض احادیث میں قیام کا اطلاق ہوا ہے، لیکن یہ بعد الرکوع کے ساتھ مقید ہے۔ مطلق قیام والے احکام اس پر جاری نہیں ہوتے۔ مثلاً:

۱۔         پہلے میں قرأت ہے دوسرے میں قرأت نہیں۔

۲۔        یہ رکوع اور سجدہ میں فرق کرنے کے لیے ہے، جب کہ پہلے قیام کا نام صرف قیام ہے۔

۳۔        اگر کسی سے کہا جائے، کہ ایک رکعت میں سجدے کتنے ہیں،تو فوراً کہے گا:’’دو‘‘ اور رکوع کتنے ہیں؟ ’’ایک ‘‘ اور قیام کتنے ہیں؟ یقینا ایک کا اظہار کرے گا۔ یہ طبعی اور عادی دلیل ہے، جب کہ بعد والے کے دوسرے ناموں میں سے اعتدال ، رفع بعد الرکوع اور فقہاء کے نزدیک قومہ بھی ہے۔ پہلے کا صرف ایک ہی نام ’’قیام‘‘ ہے۔ اس طرح دونوں قیاموں میںفرق واضح ہو گیا۔ اس بناء پر حضرت البراء سے مروی ہے:

’ کَانَ رُکُوعُ النَّبِیِّ ﷺ وَ سُجُودُهُ، وَاِذَا رَفَعَ رَأسَهٗ مِنَ الرُّکُوعِ، وَ بَینَ السَّجدَتَینِ مَا خَلَا القِیَامَ، وَالقَعُودَ۔ قَرِیبًا مِنَ السَّوَاءِ ‘(صحیح البخاری،بَابُ حَدِّ إِتمَامِ الرُّکُوعِ وَالِاعتِدَالِ فِیهِ وَالطُّمَأنِینَةِ،رقم:۷۹۲)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا رکوع، سجود اور رکوع کے بعد اور دو سجدوں کے درمیان کا وقفہ( دورانیہ) برابر ہوتا تھا، سوائے قیام اور قعود کے۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا، کہ ’’علی الاطلاق‘‘ قیام کا لفظ صرف پہلے قیام پر بولا جاتا ہے اور دوسرے پر قیام کا اطلاق بطریقِ اِلحاق ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:754

محدث فتویٰ

تبصرے