السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض کا خیال ہے کہ وِتر صرف ایک پڑھنا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا عمل ہے۔ مگر اہلِ حدیث حضرات نے اس کو بہت اپنایا ہوا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات غیر درست ہے۔
وِتر صرف ایک پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مرفوعاً ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’ وَ مَن شَاءَ فَلیُوتِر بِوَاحِدَةٍ ‘(قیام اللیل،ص:۲۱۰)
’’ یعنی جو چاہتا ہے۔ ایک وِتر پڑھ لے‘‘
اور ’’جامع ترمذی‘‘ میں ہے:
’ وَ یُوتِرُ بِرَکعَةٍ ‘(سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی الوِترِ بِرَکعَةٍ،رقم:۴۶۱)
یعنی ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وِتر پڑھتے تھے۔‘‘
اس پر عمل اکیلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہی نہیں، بلکہ صحابہ اور تابعین سے بکثرت ایک وِتر پڑھنا ثابت ہے۔ حافظ زین الدین عراقی لکھتے ہیں:
’’ خلفاء اربعہ ، سعد بن ابی وقاص، معاذ بن جبل ، ابیّ بن کعب، ابو موسیٰ اشعری، ابو الدردائ، حذیفہ، ابن عمر، معاویہ، تمیم داری، ابو ایوب انصاری، ابوہریرہ، فضالہ بن عبید، عبد اﷲبن زبیر، معاذ بن حرث القاری،( رضی اللہ عنہم ) سب ایک رکعت وِتر پڑھا کرتے تھے اور تابعین میں سے سالم بن عبد اﷲ بن عمر اور عبد اﷲ بن عباس بن ابی ربیعہ، حسن بصری، محمد بن سیرین، عطا ء بن ابی رباح، عقبہ بن عبد الغافر، سعید بن جبیر، جابر بن زید، زہری، ربیعہ بن عبد الرحمن (رحمۃاللہ علیہم) وغیرہ، ایک ایک رکعت وِتر کے قائل ہیں اور ائمہ میں سے امام شافعی، اوزاعی، احمد، اسحاق، ابو ثور، داؤد، ابن حزم(رحمۃاللہ علیہم) سب ایک رکعت وِتر کے قائل ہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس طرح نقل کیا ہے۔ فتاویٰ (عظیم آبادی،ص:۳۶۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب