سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(852) عورت نمازِ تراویح پڑھانا

  • 24861
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1011

سوال

(852) عورت نمازِ تراویح پڑھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت نمازِ تراویح پڑھا سکتی ہے؟ جواز کی صورت میں کہاں کھڑی ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنن ابوداود میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُمّ ورقہ بنت عبداللہ بن الحارث کو حکم دیا تھاکہ

’أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا‘(سنن أبی داؤد،بَابُ إِمَامَةِ النِّسَاءِ،رقم:۵۹۲،السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ إِثْبَاتِ إِمَامَةِ الْمَرْأَةِ، رقم:۵۳۵۳)

یعنی’’ اپنے گھروالوں کی امامت کرائے‘‘

عون المعبود( ۲؍۲۱۲) میں ہے کہ

’’اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورتوں کی امامت اور ان کی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان سے صحیح ثابت ہے۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا اور اُمّ سلمہ  رضی اللہ عنہا  نے عورتوں کی امامت فرض اور تراویح میں کرائی تھی‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   تلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی امامت کرائی، پس ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔ (مصنف عبدالرزاق،بَابُ الْمَرْأَۃِ تَؤُمُّ النِّسَاء َ،رقم:۵۰۸۷)

ان کے طریق سے دارقطنی او ربیہقی میں ابو حازم عن لائطۃ الحنفیۃ  حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے منقول ہے کہ انہوں نے فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرائی او روہ ان کے درمیان تھیں۔ابن ابی شیبہ او رحاکم میں ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتیں اور صف میں ان کے ساتھ کھڑی ہوتیں اوراُمّ سلمہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور درمیان میں کھڑی ہوئی تھیں۔ (المستدرک للحاکم،بَابٌ فِی فَضْلِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ،رقم:۷۳۱)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’الدرایہ‘‘میں ذکر کیا کہ’’عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا رمضان کے مہینے میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں او ران کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں‘‘۔

علامہ شمس الحق فرماتے ہیں:’’ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے درمیان کھڑی ہو، آگے کھڑی نہ ہو۔‘‘ اور سبل السلام میں ہے:’’یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ عورت کا اپنے گھر والوں کی امامت کرنا درست ہے، اگرچہ ان میں آدمی ہو۔ کیونکہ روایت سے یہ ثابت ہے کہ اُمّ ورقہ کا مؤذّن ایک بوڑھا آدمی تھا۔ ظاہر یہ ہے کہ اُم ورقہ اس کی او راپنے غلام اور لونڈی سب کی امام تھی۔ (سنن أبی داؤد،بَابُ إِمَامَۃِ النِّسَاء ِ،رقم:۵۹۲،السنن الکبرٰی للبیہقی،بَابُ إِثْبَاتِ إِمَامَۃِ الْمَرْأَۃِ، رقم:۵۳۵۳)

ابوثور، مزنی اور طبری کے نزدیک عورت کی امامت درست ہے، البتہ جمہور اس کے مخالف ہیں۔ ان دلائل سے معلوم ہوا کہ عورت کو فرض نماز کے علاوہ تراویح اور نوافل میں بھی امامت درمیان میں کھڑے ہوکر کرانی چاہئے۔ واللہ اعلم!

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:728

محدث فتویٰ

تبصرے