السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک حافظِ قرآن نے مسجد میں تین یا چار سال تراویح میں مکمل قرآن سنایا۔ مگر اس دوران نماز میں کچھ سستی کرتا رہا نیز شعبان میں داڑھی کچھ زیادہ کر لیتا ہے بعد میں پھر چھوٹی کرتاہے۔
اس کی یہ دوخامیاں دیکھ کر چند لوگوں نے اُس کو مسجد میں تراویح پڑھانے سے روک دیا۔ لوگوں نے اُسے سمجھایا بھی مگر وہ نہ سمجھا۔ دو سال بعد اب پھر یہ حافظ قرآن کہتا ہے کہ میں ان شاء اللہ داڑھی بھی پوری کروں گا نمازیں بھی پابندی کے ساتھ ادا کروں گا، میں سچا وعدہ کرتا ہوں۔
آپ سے جواب طلب یہ ہے کہ کیا ایسے آدمی کو موقع دینا چاہیے یا کہ نہیں؟ آپ کے جواب پر جماعت کا فیصلہ ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآنِ مجید میں قصۂ خضر اور موسیٰ علیہ السلام سے راہنمائی ملتی ہے، کہ جب معاملہ بندوں کے درمیان ہو تو تین دفعہ عذر اور معذرت کو کافی سمجھا جاسکتا ہے اور جب معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان ہو، تو اس میں مزید نرمی کی گنجائش ہوتی ہے، جس طرح کہ احادیث میں وارد ہے۔ کہ سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جانے والا آدمی بار بار وعدہ کرکے توڑ دے گا۔ آخر کار رحمتِ الٰہی کے جوش سے اس کو بھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔( صحیح البخاري، بَابُ الصِّرَاطُ جَسرُ جَہَنَّمَ،حدیث:۶۵۷۳ و باب فضل السجود،رقم: ۸۰۶)
اب حافظ صاحب کی متعدد مرتبہ وعدہ خلافی کے پیشِ نظر اصحاب جماعت کو چاہیے کہ اس کا خوب جائزہ لیں، کہ یہ وعدہ وفائی کرے گا یا نہیں۔ اگر قلبی اطمینان حاصل ہو جائے، تو مزید موقع دینے میں کوئی حرج نہیں۔ بصورتِ دیگر اس کا معاملہ ایک سال کے لیے ملتوی کردیا جائے تاکہ عملاً توبہ کا ظہور ہوجائے، کیونکہ شرع میں پرکھنے کی مدت ایک سال ہے۔ صحیح بخاری کے تراجم ابواب میں اس امر کی تصریح موجود ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب