السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض اہل حدیث مساجد میں دیکھنے میں آیا ہے کہ امام قرآن کریم سے دیکھ کر تراویح پڑھاتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہے: بینوا توجروا!
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اقول و باللہ التوفیق نماز میں قرآنِ کریم کی زیادہ سے زیادہ قراء ت کرکے قیام کو طویل کرنا امر مستحب ہے۔ نیز آنحضرت علیہ السلام نے طویل قیام والی نماز کو افضل قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ (ج:۲،ص:۱۸۶) حدیث نمبر:۱۱۵۵، اور السنن الکبریٰ للبیہقی (ج:۳،ص:۸) اور قیام اللیل للمروزی،ص:۵۱، میں ہے:
’ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ اَیُّ الصَّلٰوةِ اَفْضَلُ؟ قَالَ طُوْلُ الْقُنُوْت‘(صحیح مسلم،بَابُ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقُنُوتِ،رقم:۷۵۶)،(سنن ابن ماجه،رقم:۱۴۲۱)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ : ’’کونسی نماز افضل ہے۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: لمبا قیام۔‘‘
نیز احادیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اس قدر طویل قیام فرمایا کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک متورم ہوجاتے۔
عَنْ اَبِیْ هُرَیْرَةَ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ یَقُوْمُ حَتّٰی تَوَرَّمَ قَدَمَاهُ فَقِیْلَ لَهٗ، اَیْ رَسُوْلَ اللّٰهِ ! اَتَصْنَعُ هٰذَا وَ قَدْ جَآءَكَ مِنَ اللّٰهِ اَنَّ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ قَالَ : اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا؟‘ (صحیح ابن خزیمه،بَابُ اسْتِحْبَابِ الصَّلَاةِ وَکَثْرَتِهَا، وَطُولِ الْقِیَامِ فِیهَا…الخ: ج:۲، ص:۲۰۱، رقم :۱۱۸۴)،( السنن الکبریٰ للبیهقی،،ج:۲،ص:۱۶،رقم:۴۲۹۴)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کی بشارت آئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟‘‘ فرمایا: کیا میں اللہ کاشکر گزار بندہ نہ بنوں؟۔‘‘
معلوم ہوا کہ نمازوں میں حسب استطاعت طویل قیام کرنا چاہیے ۔ چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے حفظِ قرآن کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہو تو بہت بہتر ہے اور جو شخص حافظ قرآن نہ ہو ، لیکن طویل قیام کرنا چاہتا ہو، وہ قرآنِ کریم سے دیکھ کر قراء ت کر سکتا ہے۔ ذخیرۂ احادیث میں اس سے منع کی کوئی روایت موجود نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلافِ امت کا تعامل اسی پر ملتاہے کہ وہ قرآنِ کریم سے دیکھ کر قراء ت کیا کرتے تھے۔ مثلاً:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے غلام ، جنابِ ذکوان قران کریم سے دیکھ کر ان کی امامت کراتے تھے۔ ملاحظہ ہو!( صحیح بخاری، باب امامۃ العبد والمولیٰ۔ مؤطا امام مالک، باب قیامِ رمضان ، السنن الکبریٰ للبیہقی،ج:۲،ص:۵۳، قیام اللیل للمروزی،ص:۱۶۲، مسند الشافعی، مصنف ابن ابی شیبہ، بحوالہ فتح الباری،ج:۲،ص:۱۵۸، و تلخیص لحبیر،ج:۳،ص::۴۳، و نیل الاوطار،ج:۲،ص:۱۸۳۔)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب