سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(839) نمازِ تراویح میں ختم قرآن کا حکم

  • 24848
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3460

سوال

(839) نمازِ تراویح میں ختم قرآن کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

:1مسلمانوں میں قرآن شریف کو حفظ کرنا صرف اس لیے کہ رمضان المبارک میں تراویح میں پڑھا جائے جیسا کہ آج کل مروّج ہے ، شریعت کی رُو سے کیساہے؟

2۔اگر حافظ صاحبان تراویح میں پورا قرآن ختم نہ کریں تو خدا کے ہاں جوابدہ ہوں گے؟ یعنی حافظ ہوتے ہوئے اگر کوئی روزانہ نصف یا ربع سپارہ تراویح میں سنائے حتی کہ رمضان ختم ہو جائے اور اس کا قرآن ختم نہ ہوا ہو۔

3۔کیا نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایسی کوئی حدیث ہے جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہو کہ تراویح میں پورا قرآن پڑھو! اور بقایا لوگ سنیں۔ اگر نہیں تو جب ہمارے علمائے کرام روزہ کھولنے کی دعا میں دو الفاظ کے اضافے کو بدعت قرار دیتے ہیں تو حفاظ کرام کا یہ عمل کیسا ہے ؟

4۔آج کل ایک ہی مسجد میں تین تین یا چار چار حفاظ تراویح پڑھاتے ہیں ۔ ان کا ایسا کرنا شریعت کی روشنی میں کیسا ہے ۔ کیونکہ سوائے ایک یا دو صاحبان کے بقایا کے پیچھے چار یا پانچ نمازی ہی ہوتے ہیں؟ یعنی اجتماعیت ختم ہو کر انفرادیت معلوم ہوتی ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1 : بلا ریب (بلاشبہ) قرآن مجید حفظ کرنا ایک عظیم سعادت ہے جیسا کہ بعد از حفظ گیارہ ماہ تلاوت ترک کیے رکھنا بھی سخت ترین جرم ہے اور پھر صرف نمازِ تراویح میں سنا کر اپنے آپ کو فارغ سمجھ لینا بے معنی شے ہے، جو اس کی گیارہ ماہ کی سُستی و کاہلی کا نِعمُ البَدَل نہیں بن سکتا۔ بلکہ حفظ اس بات کا متقاضی ہے، کہ اہلِ قرآن کی عملی زندگی ہر شعبہ میں عام لوگوں سے ممتاز اور نمایاں ہو۔

2۔متعدد صحیح احادیث میں ہر مومن مرد و زن کو قرآن مجید سے خصوصی تعلق اور تلاوت کی ترغیب دلائی گئی ہے، تاکہ خطا کار انسان دینی و دنیاوی سعادتوں سے بہرہ ور ہو سکے۔ سلف صالحین سے بکثرت اقوال و آثار ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے، کہ وہ نہایت قلیل مدت میں اختتام منزل کو پہنچ جاتے تھے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا تھا:

’ صُم کُلَّ شَهرٍ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ وَ اقرَأ القُرآنَ فِی کُلِّ شَهرٍ‘صحیح البخاری،بَابٌ: فِی کَم یُقرَأُ القُرآنُ ،رقم:۵۰۵۲ ، مشکوٰة، باب صیام التطوع

’’ہر ماہ تین روزے رکھ! اور ہر ماہ قرآن ختم کر!‘‘

اور رمضان میں تو تلاوت کا مزید اہتمام ہونا چاہیے۔ چنانچہ ’’مشکوٰۃ‘‘ باب الاعتکاف میں حدیث ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ہر رمضان میں جبریل علیہ السلام  سے قرآن مجید کا دَور کرتے تھے اور وفات کے سال دو دفعہ دَور کیا۔ علاوہ ازیں رمضان میں ’’قیام اللیل‘‘ کا زیادہ اہتمام ہوتا ہے اور اس کی ترغیب بھی زیادہ وارد ہے اور قیام قرآن مجید کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ کم از کم ایک دفعہ رمضان میں قرآن ختم ہو جائے۔ جِدُّو جہد کے باوجود اگر ختم نہ بھی ہو سکے تو کوئی حرج نہیں۔

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

3۔اگر کوئی خود نہ پڑھ سکے تو سننے کی سعی کرے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص کتاب اﷲ کی ایک آیت کی طرف کان لگائے اس کے لیے دوگنی نیکی لکھی جاتی ہے اور جو کتاب اﷲ کی ایک آیت پڑھے اس کے لیے قیامت کے دن نور ہو گا۔ شعب الایمان،رقم:۱۸۲۸،کنز العمال:۱/۱۲۰،رقم:۲۳۱۶، بحوالہ مسند احمد

علامہ سیوطی رحمہ اللہ  نے ’’دُرِّمنثور‘‘ میں ’’سورۃ الاعراف‘‘ کے اخیر میں اس حدیث پر تحسین کا حکم لگایا ہے۔

اسی طرح حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔روزہ کہے گا: یااﷲ! میں نے اس کو کھانے اور شہوت سے روکا۔ اس کے حق میں میری سفارش قبول کر۔ قرآن مجید کہے گا: میں نے اس کو رات میں سونے سے روکا۔ اس کے حق میں میری سفارش قبول کر۔ پس ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ مشکوٰۃ کتاب الصوم،صحیح الترغیب والترہیب:۹۳۷،المجعم الکبیر للطبرانی،،رقم:۸۸،مسند احمد،رقم:۶۶۲۶

مذکور حدیث میں روزہ کے مقابلہ میں قرآن کا تذکرہ اس کے ساتھ قیام کی وجہ سے ہوا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں تلاوتِ قرآن کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔ یہ بدعت کے زمرہ میں نہیں آتا جیسا کہ سائل نے سمجھا ہے۔

4۔ حفاظ کی آوازوں کا اگر باہمی ٹکراؤ ہو۔ پھر تو ناجائز ہے۔ بصورتِ دیگر جائز ہے۔ نفلی نماز میں اگر اجتماعیت برقرار نہ بھی رہے تو کوئی حرج نہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!( فتاویٰ اہل حدیث:۲/۳۳۴۔۳۳۵)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:720

محدث فتویٰ

تبصرے