السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مکرمی حافظ صاحب !السلام علیکم ورحمۃ اللہ، امابعد! میری طرف سے دو سوالات پر مشتمل ایک رجسٹری آپ کو ملی ہوگی، اس میں سوال نمبر ۲ میں غالباً یہ شق میں نے نہیں لکھی کہ جس خطیب صاحب نے تراویح کے بدعت ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ وہ پورا سوال اس طرح ہے کہ نمازِ تراویح باجماعت بدعت ہے اور یہ نماز عشاء سے متصل نہیں بلکہ رات کے آخری حصہ میںباجماعت ادا کی جائے۔ اس طرح کے مسائل کی وجہ سے مسجد اہلِ حدیث میں ہر روز جھگڑے ہو رہے ہیں ۔ ہماری مسجد سے تقریباً متصل اہل ِ بدعت کی مسجد ہے جذباتی نوجوانوں کو ذرا احساس نہیں کہ خطیب اور ہماری ان حرکات سے جماعتی وقار مجروح ہو رہا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازِ تراویح باجماعت پڑھنا بدعت نہیں، یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چار راتوں تک اس کی جماعت کروائی تھی۔ پھر محض اس وجہ سے جماعت ترک کی کہ کہیں فرض نہ ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب یہ خدشہ زائل ہوگیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس نیک کام کو دوبارہ شروع کر دیا۔ عشاء کے بعد کسی وقت بھی ’’قیام اللیل‘‘ ہوسکتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت اس امر پر واضح دلیل ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگو ںکی سہولت کے پیشِ نظر اس کو رات کے پہلے حصہ میں مقرر کر دیا ۔ یہ کوئی بدعت کا کام نہیں۔ جملہ مسائل کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو( کتاب قیام اللیل) از امام محمد بن نصرمروزی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب