سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(835) رکعاتِ تراویح میں سنت نبوی ﷺ اور تعامل صحابہ

  • 24844
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1910

سوال

(835) رکعاتِ تراویح میں سنت نبوی ﷺ اور تعامل صحابہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان المبارک میں نمازِ تراویح کتنی رکعت سنت نبوی ہیں؟ اور بیس تراویح کی کیا حقیقت ہے؟ اور کیا حضرت عمرؓ بن خطاب یا کسی دیگر صحابی سے بیس رکعت کا ثبوت ملتا ہے؟ بعض لوگ حضرت عمرؓ کی طرف نسبت کہتے ہیں کہ انہوں نے بیس رکعت کا حکم دیا تھا یا ان کے زمانے میں پڑھی گئی ہیں۔ براہِ کرم وضاحت فرما کر مشکور فرمائیں۔ (محمد شعیب پاکپتن،ماہنامہ محدث ، نومبر۱۹۷۱)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 نمازِ تراویح آٹھ رکعت سنت نبوی ہیں۔

حدیث: ۱۔ صحیحین (روایت موطأ امام مالک، ابو داود، ترمذی، بیہقی، مسند امام احمد اور ابو عوانہ وغیرہ میں بھی موجود ہے) میں حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے مروی ہے:

’ إِنَّه سَاَلَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا کَیْفَ کَانَتْ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ  فِیْ رَمَضَانَ؟ قَالَتْ مَاکَانَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِه" بخاری میں ایک دوسرے مقام پر وَلَا غَیْره یعنی لفظ’’فی‘‘ کے بغیر ہے۔"عَلٰی إِحْدٰی عَشَرَةَ رَکْعَةً  یُصَلِّیْ اَرْبَعًا فَلَا تَسْاَلْ عَنْ حُسْنِهِنِّ وَطُوْلِهِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ارْبَعًا فَلَا تَسْاَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُوْلِهِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثًا قَالَتْ عَائِشَةُ:َقُلْتُ:یَا رَسُوْلَ اللهِﷺ اتَنَامُ قَبْلَ انْ تُوْتِرَ فَقَالَ: یَاعَائِشَةُ إنَّ عَیْنَیَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ‘(صحیح البخاری،بَابُ فَضلِ مَن قَامَ رَمَضَانَ، رقم:۲۰۱۳)، (صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةِ اللَّیلِ، وَعَدَدِ رَکَعَاتِ النَّبِیِّ ﷺفِی اللَّیلِ…الخ ،رقم:۷۳۸)

حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے ام المومنین عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رمضان المبارک میں نماز کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا۔ آپ فرماتی ہیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تھا۔ چار رکعت خوب اچھی طرح (خشوع خضوع سے) اور لمبی پڑھتے پھر چار رکعت خوب اچھی طرح اور لمبی پڑھتے پھر تین رکعت وتر پڑھتے۔ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں۔ فرمایا اے عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور دِل جاگتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام المحدثین محمد بن اسماعیل بخاری( رحمہ اللہ ) اپنی جامع میں تین مقامات پر لائے ہیں۔کتاب التھجد۔ کتاب صلوۃ التراویح" عنوان کتاب صلوۃ التراویح صرف نسخہ مستملی میں ہے۔" کتاب المناقب۔

مقصود اس سے مختلف مسائل کا استنباط و استخراج ہے جیسا کہ بخاری کی عادت ہے۔ حافظ ابن حجر ( رحمہ اللہ ) فتح الباری جز۳ صفحہ۳۳  مذکورہ حدیث کے تحت یوں رقم طراز ہیں: فِیْ الْحَدِیْثِ دَلَالَةٌ عَلٰی انَّ صَلَاتَه ﷺ  کَانَتْ مُتَسَاوِیَةً فِیْ جَمِیْعِ السَّنَةِ یعنی اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ آپ کی (رات کی) نماز سارا سال برابر تھی۔

فضیلۃ الشیخ علامہ ابو الحسن عبید اللہ بن علامہ محمد عبد السلام مبارک پوری حفظہ اللہ تعالیٰ فی الدارین اپنی محققانہ تالیف مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں تحریر فرماتے ہیں:

’ فَهٰذَا الْحَدِیْثُ نَصٌّ فِیْ انَّهُ ﷺ إنَّمَا صَلّٰی التَّرَاوِیْحَ فِیْ رَمَضَانَ ثَمَان رَکَعَاتٍ فَقَطْ َلَمْ یُصَّلِ بِاکْثَرَ مِنْهَا ‘

’’ یعنی یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رمضان میں صرف آٹھ رکعت ہی پڑھی ہیں اس سے زیادہ نہیں پڑھیں۔‘‘

مولانا انور شاہ کشمیر رحمہ اللہ  حنفی عرف الشذی (۳۰۹)میں فرماتے ہیں:

’ فِیْهِ تَصْرِیْحٌ انَّه حَالُ رَمَضَانَ فَاِنَّ السَائلَ سَأَلَ عَنْ حَالِ رَمَضَانَ وَغَیْرِه کَمَا عِنْدَ التِّرْمِذِی،ّ وَمُسْلِمٍ وَّلَا مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیْم اَنَّ تَرَاوِیْحَه عَلَیْهِ السَّلَامُ کَانَتْ ثَمَانِیَةَ" صحیح ثمان رکعات یا ثمانی رکعات ہے یعنی تاء کے بغیر، کیونکہ تین سے نو تک عدد معدود میں تذکیر و تانیث کا اختلاف ہوتا ہے۔" رَکَعَاتٍ لَمْ یَثْبُتْ فِیْ رِوَایَةٍ مِّنَ الرِّوَایَاتِ انَّهُ عَلَیْهِ السَّلَامُ صَلّٰی التَّرَاوِیْحَ وَالتَّهَجُّدَ عَلٰی حِدَةٍ فِیْ رَمَضَانَ بَلْ طَوَّلَ التَّرَاوِیْحِ، وَبَیْنَ التَّرَاوِیْحِ وَالتَّهَجُّدِ فِیْ عَهْدِه عَلَیْهِ السَّلَامُ لَمْ یَکُنْ فَرْقٌ فِی الرَّکَعَاتِ‘

’’حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) کی حدیث میں تصریح ہے کہ یہ (گیارہ رکعات) بحالت رمضان ہیں کیونکہ سائل کا سوال رمضان و غیر رمضان سے ہے جیسا کہ ترمذی اور مسلم میں ہے، اور یہ ماننا ہی پڑتا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نمازِ تراویح آٹھ رکعات تھیں اور روایتوں میں سے کسی روایت میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں بلکہ آپ نے تراویح ہی کو لمبا کیا اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں تراویح اور تہجد کی رکعات میں کوئی فرق نہیں تھا۔‘‘

گیارہ رکعات کی حکمت:

رکعات تراویح میں گیارہ رکعات کی حکمت یہ ہے کہ تہجد (تراویح) اور وتر رات کی نماز ہیں جس طرح ظہر، عصر اور مغرب دن کی نماز ہیں، جب دن کی نماز ظہر۴ ، عصر۴ اور مغرب۳ کل گیارہ رکعات فرض ہیں۔ رات کی نماز بھی عدد میں (گیارہ رکعات) ان کے برابر مناسب ہے اور اگر فجر کے دو فرض بھی دن کی نمازوں میں شامل کر لیے جائیں تو تیرہ رکعات کی حکمت بھی حاصل ہو جاتی ہے ۔ یہی حکمت حافظ ابن حجررحمته الله عليه نے فتح الباری جلد ۳میں بیان فرمائی ہے۔

اگر کوئی کہے کہ عائشہؓ کی یہ روایت ان کی ایک دوسری روایت کے خلاف ہے جو یوں ہے :

’ إنَّه کَانَ (ﷺ) إذَا دَخْلَ الْعشْرُ الْاوَاخِرُ یَجْتَهِدُ مَا لَا یَجْتَهِدُ فِیْ غَیْرِه‘(صحیح مسلم،بَابُ الِاجْتِهَادِ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ،رقم:۱۱۷۵)

’’رمضان المبارک کا جب آخری دھاکا آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  عبادت میں اتنی محنت کرتے جو اس سے دوسرے دنوں میں نہ ہوتی۔‘‘

یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نفل نوافل بہت پڑھتے تھے۔

اس کے جواب میں صاحب مرعاۃ المفاتیح مولانا رحمانی فرماتے ہیں:

’ قُلْتُ:اَلْمُرادُ بِالْاِجْتِهَادِ تَطْوِیْلُ الرَّکَعَاتِ لَا الزِّیَادَةُ فِیْ الْعَدَدِ ۔‘

یعنی ’’محنت سے مراد رکعات کا لمبا کرنا ہے نہ کہ عدد میں زیادتی۔‘‘

اور علامہ عینی رحمہ اللہ  حنفی فرماتے ہیں:

’ إنَّ الزِّیَادَةَ فِیْ الْعَشْرِ الْاوَاخِرِ یُحْمَلُ عَلٰی التَّطْوِیْلِ دُوْنَ الزِّیَادَةِ فِیْ الْعَدَدِ ‘

’’آخری عشرہ میں زیادتی (محنت) کو رکعات کے لمبا کرنے پر محمول کیا جائے گا نہ کہ زیادتی عدد پر۔‘‘

حدیث ۲۔ معجم الصغیر اور قیام اللیل مروزی" یہ روایت صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان اور مسند ابو یعلی وغیرہ میں بھی موجود ہے۔"میں حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے۔

’’قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِیْ شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَان رَکَعَاتٍ ‘

جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان میں ہمیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں۔

امام ذہبی اس حدیث کو میزان الاعتدال،ج:۲،ص:۳۱۱ میں عیسی بن جاریہ مدنی راوی حدیث کے ترجمہ (بیان احوال) میں ذکر فرماتے ہیں: اسنادہ وسط یعنی اس حدیث کی ند رمیانہ درجہ کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے فتح الباری میں اس حدیث کو بیان کر کے اس کی سند پر کوئی جرح نہیں کی۔ گویا مقدمہ فتح الباری (ہدی الساری) میں ذکر کردہ شرط کی بناء پر حافظ صاحب کے نزدیک اس کی سند صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہے۔

ایسے ہی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس حدیث پر تلخیص الجیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر (فقہ شافعی) میں سکوت کیا ہے۔

اور علامہ عینی حنفی بھی عمدۃ القاری شرح بخاری میں اس حدیث کو لائے ہیں اور ابن خزیمہ اور ابن حبان سے اس کی تصحیح نقل کی ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

ہاں البتہ مولوی شوق نیموی نے آثار السن میں امام ذہبی کے کلام پر تنقید کی ہے چنانچہ لکھا ہے۔ اس حدیث کا مدار عیسی بن جاریہ پر ہے۔ اس میں ابن معین، ابو داود اور نسائی وغیرہ نے جرح کی ہے اس بناء پر اس کی اسنادلین (کمزور) ہے لہٰذا دلیل کے قابل نہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   شرح نجنۃ الفکر میں فرماتے ہیں:

اَلذَّهْبِیُّ مِن اَهلِ الِاسْتقْرَاء ِ التَّامِّ فِی نَقْدِ الرِجَّالِ ’’امام ذہبی رواۃ کی جرح و تعدیل میں اہل استقراء تام سے ہیں۔‘‘ بحر العلوم صفحہ ۴۴۱ طبع نول کشور شرح مسلم الثبوت (اصول فقہ حنفی) میں ذہبی کے متعلق ذکر ہے:ھُوَ مِنْ اَهْلِ الْاِسْتِقْرَاء ِ التَّامِّ فِیْ نَقْلِ حَالِ الرِّجَالِ ‘

یعنی ’’اس کا (ذہبی کا) استقراء اسماء الرجال میں بہت کامل ہے۔‘‘

صاحب تحفۃ الاحوذی جز ۳ص۵۲۵ (طبع جدید مصری) میں فرماتے ہیں۔

’ فَلَمَّا حَکَمَ الذَّهْبِیُّ بِاَنَّ اِسْنَادَه وَسَطٌ بَعْدَ ذِکْرِ الْجَرْحِ وَالتَّعْدِیْلِ فِیْ عِیْسٰی بْنِ جَارِیَةَ وَهُوَ مِنْ اَهْلِ الْاِسْتِقْرَاء ِ التَّامِّ فِیْ نَقْدِ الرِّجَالِ فَحُکْمُهٌ بِاَنَّ اِسْنَادَه وَسَطٌ وَهُوَ الصَّوَابُ وَیُوَیِّدُه إِخْرَاجُ ابْنِ خُزَیْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ هٰذَا الْحَدِیْثَ فِیْ صَحِیْحَیْهِمَا فَلَا یُلْتَفَتُ إِلٰی مَا قَالَ النِّیْمَوِیُّ وَیَشْهَدُ لِحَدِیْثِ جَابِرٍهٰذَا حَدِیْثُ عَائِشَةَ الْمَذْکُوْرُ مَا کَانَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِه عَلٰی إِحْدٰی عَشَرَة رَکَعَةً ۔‘

’’جب امام مذہبی رحمہ اللہ  نے عیسی بن جاریہ میں جرح و تعدیل کے بعد اس حدیث کی سند پر وسط (درمیانہ درجہ) کا حکم لگایا ہے۔ وہی صحیح ہے کیونکہ ذہبی نقد رجال میں اہل استقراء تام سے ہیں اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان(اگر کوئی کہے کہ ابن حبان تصحیح میں متساہل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں ابن خزیمہ اور ابو زرعۃ، عیسی بن جاریہ کی توثیق میں ابن حبان کے موید ہیں۔ ابن حبان تصحیح میں منفرد نہیں لہٰذا ابن حبان کی تصحیح قابل اعتماد ہوئی۔ صحیح ابن خزیمہ کے بارہ میں حضرت الاستاد حماد بن محمد الانصاری (مدینہ منورہ) کو فرماتے سنا:صحیح ابن خزیمہ کی احادیث علی الاقل حسن درجہ کی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ امام ذہبی کا اس حدیث کے متعلق ’’اسنادہ وسط‘‘فرمانا درست ہے۔ صحیح ابن خزیمہ ابھی تک قلمی ہے جس کا فوٹو میں نے مدینہ منورہ میں دیکھا ہے جو دارالعلوم برلن (جرمنی) کے کتب خانہ میں موجود قلمی نسخہ سے لیا گیا ہے۔ مدینہ منورہ کا ایک تاجر اسے طبع کرانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ خدا کرے جلد از جلد منظر عام پر آجائے تاکہ علماء و طلباء مستفید ہو سکیں۔)اپنی اپنی صحیح میں اس حدیث کو لائے ہیں۔ پس نیموی کا قول قابل التفات نہیں ہے۔ نیز حضرت جابر کی اس حدیث کی موید (شاہد) حضرت عائشہ کی حدیث ہے یعنی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں تھا۔‘‘

حدیث ۳۔:تحفۃ الاحوذی میں بحوالہ ابو یعلی جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے۔

 جَاء َ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ اِلٰی رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ:یَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ إنَّه کَانَ مِنِّیْ اللَّیْلَةَ شَیٌ یَعْنِیْ فِیْ رَمَضَانَ قَالَ:وَمَا ذَاکَ یَا اُبَیُّ، قَالَ:نِسْوَةٌ فِیْ دَارِیْ قُلْنَ:إِنَّا لَا نَقْرَء ُ الْقُرْاٰنَ فَنُصَلِّیْ بِصَلَاتِكَ قَالَ:فَصَلَّیْتُ بِهِنَّ ثَمَان رَکَعَاتٍ َاَوْتَرْتُ فَکَانَتْ سُنَّةَ الرِّضَا وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا:

(قَالَ الْهَیْثمیُّ فِیْ مَجْمَِع الزَّوَائِدِ:إسْنَادُه حَسَنٌ)

’’ابی بن کعب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضر ہوئے۔ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں آج رات مجھ سے ایک (عجیب) کام ہوا، آپ نے فرمایا وہ کیا؟ عرض کی ہمارے گھر میں عورتوں نے مجھ سے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتیں اس لئے ہم تیرے ساتھ نماز پڑھیں گی۔ پس میں نے انہیں آٹھ رکعات (تراویح) پڑھائیں اور ور پڑھے۔ پس راوی کا بیان ہے کہ یہ طریقہ پسند کیا گیا اور آپ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔‘‘

حافظ ہیثمی فرماتے ہیں:اس حدیث کی سند حسن ہے۔

مندرجہ بالا تین احادیث سے ثابت ہوا کہ نماز تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے۔

بیس تراویح کی حقیقت:

بیس تراویح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  یا کسی صحابی مثلاً عمر بن خطابؓ وغیرہ سے ثابت نہیں اس سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں اس کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں۔

اس سلسلہ میں سنن کبریٰ بیہقی(بہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید فی المنتخب من المسند، طبرانی فی المعجم الکبیر وفی المعجم الاوسط والمنتقی منہ للذھبی والجمع بینہ وبین الصغیر لغیر الطبرانی وابن عدی فی الکامل والخطیب فی الموضح)کی ایک روایت عبد اللہ بن عباس سے مرفوعاً بیان کی جاتی ہے جو یہ ہے: ’اِنَّ النَّبِی ﷺ کَانَ یُصَلِّی فِی رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً سِوٰی الْوِتْرِ ‘

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان میں بیس رکعات وتر کے سوا تھا۔ اس پر صاحب مرعاۃ المفاتیح لکھتے ہیں:

فَهُوَ ضَعِیْفٌ جِدًّا لَّا یَصْلُحُ لِلْاِسْتِدْلَالِ ولا للاستشْهَادِ وَلَا لِلْاِعْتِبَارِ فَاِنَّ مَدَارَه عَلٰی اَبِیْ شَیْبَةَ اِبْرَاهِیْمَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مَتْرُوْكُ الْحَدِیْثِ کَمَا فِیْ التَّقْرِیْبِ

یعنی عبد اللہ بن عباس کی حدیث سخت ضعیف ہے جو نہ تو دلیل بنانے کے قابل ہے اور نہ ہی تائید و تقویت کے قابل ہے کیونکہ اس کا مدار ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان (دادا امام ابن ابی شیبہ) پر ہے اور وہ متروک الحدیث ہے جیسا کہ تقریب التہدیب میں ہے۔

اور علامہ زیلعی حنفی اسی حدیث کے متعلق نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایۃ میں فرماتے ہیں:

هُوَ مَعْلُوْلٌ بِابِیْ شَیْبَةَ إبْرَاهِیْمَ بْنِ عُثْمَانَ مُتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِه وَلَیَّنَه ابْنُ عَدِیٍّ فِیْ الْکَامِلِ ثُمَّ إنَّه مُخَالِفٌ لِلْحَدِیْثِ الصَّحِیْحِ عَنْ اَبِیْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّه سَاَلَ عَائِشَةَ کَیْفَ کَانَتْ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِیْ رَمَضَانَ؟ قَالَتْ:مَا کَانَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِه عَلٰی إحْدٰی عَشَرَةَ رَکْعَةً ،الْحَدِیْثَ

عبد اللہ بن عباس کی حدیث ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے سبب سے ضعیف ہے۔ جس (ابی شیبہ) کے ضعف پر اتفاق ہے اور ابن عدی نے کامل میں اسے لین (کمزور) کہا ہے۔ پھر یہ روایت ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں انہوں نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان کی نماز کیسی تھی؟ فرمایا:آپ کا معمول رمضان غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تھا۔

اور ابن الہمام حنفی فتح القدیر شرح ہدایۃ میں اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

هُوَ ضَعِیْفٌ بِابِیْ شَیْبَةَ إبْرَاهِیْمَ بْنِ عُثْمَانَ مُتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِه مَعَ مُخَالَفَتِه لِلصَّحِیْحِ

یہ روایت ابو شیبہ ابرہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے جس کے ضعف پر علماء کا اتفاق ہے جب کہ وہ صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے۔

اور علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں تحریر فرماتے ہیں:

’ ابُوْ شَیْبَةَ إبْرَاهِیْمُ ابْنُ عُثْمَانَ عَبْسِیٌّ کُوْفِیٌّ قَاضِیْ وَاسِطَ جَدُّ ابِیْ بَکْرِ بْنِ ابِیْ شَیْبَةَ کَذَّبَه شُعْبَةُ وَضَعَّفَه احَمْدُ فِیْ مَنَاکِیْرِه ،انْتَهٰی ‘

’’امام شعبہ نے ابراہیم بن عثمان کو کذاب کہا ہے اور امام احمد، ابن معین، بخاری اور نسائی وغیرہ نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس حدیث کو ابن عدی نے کامل میں ابراہیم بن عثمان کی منکر احادیث میں شامل کیا ہے۔ ‘‘

اور امام بیہقی فرماتے ہیں: تَفَرَّدَ بِه ابُوْ شَیْبَةَ إبْرَاهِیْمُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَبسِیُّ الْکُوْفِیُّ وَهُوَ ضَعِیْفٌ اس حدیث میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔

فتح الباری جز ۴میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   فرماتے ہیں۔

وَامَّا مَا رَوَاهُ ابْنُ ابِیْ شَیْبَةَ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُصَلِّیْ فِیْ رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَةً وَالْوِتْرَ فَاِسْنَادُه ضَعِیْفٌ۔

وَقَدْ عَارَضَه حَدِیْثُ عَائِشَةَ هٰذَا الَّذِیْ فی الصَّحِیْحَیْنِ مَعَ کَوْنِهَا اعْلَمَ بِحَالِ النَّبِیِّ ﷺ لَیْلًا مِّنْ غَیْرِهَا

ابن ابی شیبہ نے (مصنف میں) ابن عباس سے جو روایت کی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ نیز حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) کی صحیحین والی حدیث اس کے خلاف ہے۔ حالانکہ عائشہؓ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے رات احوال سے دوسروں کی نسبت زیادہ با خبر ہیں۔ اور حضرت الشیخ علامہ ناصر الدین البانی محدث شام اپنی تالیف صلوٰۃ التراویح میں فرماتے ہیں:میں نے اس حدیث کے مصادر کا تتبع کیا۔ جمیع طرق میں ابراہیم بن عثمان عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس مرفوعا ہے۔

امام طبرانی فرماتے ہیں:

یہ روایت حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے صرف اسی اسناد سے منقول ہے۔ اور حافظ نور الدین ہیثمی کا قول ہے۔انہ ضعیف عبد اللہ ؓ بن عباس کی حدیث ضعیف ہے۔

اور علامہ البانی فرماتے ہیں:

وَالْحَقِیْقَةُ انَّه ضَعِیْفٌ جِدًّا کَمَا یُشِیْرُ إلَیْهِ قَوْلُ الْحَافِظِ الْمُتَقَدِّمِ (مَتْرُوْكُ الْحَدِیْثِ) وَهٰذَا هُوَ الصَّوَابُ فَقَدْ قَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ:لَیْسَ بِثِقَةٍ وَقَالَ الْجَوْزَ جَانِیُّ:سَاقِطٌ وَّقَالَ الْبُخَارِیُّ:سَکَتُوْا عَنْهُ

حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس کی روایت بہت ضعیف ہے جیسا کہ تقریب التہذیب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   کے قول (متروک الحدیث میں) اشارہ ہے اور یہی درست ہے۔ امام الجرح والتعدیل ابن معین نے کہا:ابراہیم ثقہ نہیں اور جو زجانی نے کہا ہے:اعتبار سے گرا ہوا ہے اور امام بخاری فرماتے ہیں:سَکَتُوْا عَنْہُ (امام بخاری کے نزدیک یہ کلمہ متروک الحدیث کے شبیہ ہے۔ ملاحظہ ہو :اختصار علوم الحدیث للحافظ ابن کثیر ص۱۱۸)

پھر شیخ البانی اپنے رسالہ ’’صلوۃ التراویح‘‘میں فرماتے ہیں۔

وَلِذَالِكَ فَإنِّیْ ارٰی انَّ حَدِیْثَه هٰذَا فِیْ حُکْمِ الْمَوْضُوْعِ لِمُعَارَضَتِه لِحَدِیْثِ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ کَمَا سَبَقَ عَنِ الْحَافظَیْنِ الزَّیْلَعِیِّ وَالْعَسْقَلَانِیِّ

’’اور اسی لئے میری رائے یہ ہے کہ ابن عباس سے روایت موضوع کے حکم میں ہے کیونکہ یہ عائشہ اور جابر کی احادیث کے بھی معارض ہے جیسا کہ حافظ زیلعی اور حافظ عسقلانی کے اقوال میں گزرا ہے۔‘‘

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت قابل احتجاج و اعتبار نہیں ہے اس لئے حضرت عائشہ اور جابر کی روایت پر عمل کیا جائے گا جس میں آٹھ رکعت کا ذکر ہے۔

حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) سے بیس تراویح ثابت نہیں اور نہ ہی ان کے دورِ خلافت میں یہ صحابہ کا معمول رہا بلکہ حضرت عمرؓ نے سب کو جمع کر کے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ موطا امام مالک(یہ حدیث ابو بکر نیشا پوری نے فوائد میں اور بیہقی نے سنن کبریٰ میں اور فریابی نے بھی روایت کی ہے۔)میں ہے۔

عَنْ مُّحَمَدَّ بْنِ یُوْسُفَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ انَّہ قَالَ امَرَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَّتَمِیْمًا الدَّارِیَّ انْ یَّقُوْمَا لِلنَّاسِ بِإحْدٰی عَشَرَةَ َکْعَةً قَالَ وَقَدْ کَانَ الْقَارِءُ یَقْرَءُ بِالْمِئِیْنِ حَتّٰی کُنَّا نَعْتَمِدُ عَلٰی الْعِصِیِّ مِنْ طُوْلِ الْقِیَامِ وَمَا کُنَّا نَنْصَرِفُ إلَّا فِیْ فُروْعِ الْفَجْرِ

’’سائب بن یزید فرماتے ہیں خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ قاری مئین سورتیں پڑھتا یہاں تک کہ ہم طول قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے اور ہم پو پھٹنے کے قریب (گھروں کو) واپس ہوتے۔‘‘

محدث شام شیخ البانی فرماتے ہیں:

قُلْتُ:هٰذَا سَنَدٌ صَحِیْحٌ جِدًّا فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ یُوْسُفَ شَیْخ مَالِكٍ ثِقَةٌ اِّتفَاقًا وَّاحْتَجَّ بِه الشَّیْخَانِ وَالسَّائِبُ بْنُ یَزِیْدَ صَحَابِیٌّ حَجَّ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ وَهُوَ صَغِیْرٌ

’’اس روایت کی سند بہت صحیح ہے کیونکہ محمد بن یوسف شیخ امام مالک بالاتفاق ثقہ ہے اور شیخین (بخاری مسلم) نے اس سے حجت لی ہے اور سائب بن یزید صحابی ہے جس نے بچپن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حج کیا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا یہ فرمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  و جابر رضی اللہ عنہ  کی پہلے بیان کردہ احادیث کے عین موافق ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے نزدیک مسنون گیارہ رکعت ہی ہیں جس پر آپ نے لوگوں کو جمع کیا۔

باقی رہا کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں لوگوں کا معمول کیا تھا؟ سو وہ بھی بیس تراویح کسی صحیح طریق سے ثابت نہیں اور حضرت عمرؓ کے عہد میں لوگوں کا باجماعت گیارہ رکعت پڑھنا صحیح روایت سے ثابت ہو چکا ہے۔ بیس رکعت والی روایات ضعیف ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

روایت ۱۔: موطا امام مالک میں یزید بن رومان سے مروی ہے۔

کَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ فِیْ زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِیْ رَمَضَانَ بِثَلٰثٍ وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَةً

حضرت عمرؓ کے عہد میں لوگ رمضان میں تئیس رکعت پڑھا کرتے تھے۔ اس روایت کو امام بیہقی سنن کبریٰ اور المعرفۃ (معرفۃ السنن والآثار) میں لائے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں یزید بن رومان لم یدرک عمر۔

اس روایت کے راوی یزید بن رومان نے حضرت عمرؓ کو نہیں پایا لہٰذا یہ روایت منقطع ہے جو ضعیف کی قسم ہے اور حافظ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ میں اس (جرح) پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اسے برقرار رکھا ہے۔

روایت ۲۔: علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں ایک روایت حافظ ابن عبد البر سے نقل کی ہے۔

قَالَ:وَرَوٰی الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ ذُبَابٍ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ:کَانَ الْقِیَامُ عَلٰی عَهْدِ عُمَرَ بِثَلَاثٍ وَّعشرِیْنَ رَکْعَةً

سائب بن یزید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تئیس رکعت کا رواج تھا۔

اس اثر میں بھی ضعف ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

هٰذَا سَنَدٌ ضَعِیْفٌ لِّانَّ ابْنَ اُبِیْ ذُبَابٍ هٰذَا فِیْهِ ضَعْفٌ مِنْ قَبْلِ حِفْظِه قَالَ ابْنُ اَبِیْ حَاتِمٍ فِیْ الْجَرْحِ وَالتَّعْدِیْلِ:قَالَ اَبِیْ:یَرْوِیْ عَنْهُ الدَّرَاوَرْدِیُّ اَحَادِیْثَ مُنْکَرَةً وَّلَیْسَ بِذَالِكَ القَوِیِّ یُکْتَبُ حَدِیْثُه قَالَ اَبُوْ زُرْعَةَ:لَا بَاسَ بِه

’’اِس اثر کی سند ضعیف ہے کیونکہ ابن ابی ذباب حافظہ کمزور ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن ابی حاتم ’’الجرح والتعدیل‘‘میں فرماتے ہیں۔ میرے والد نے کہا دراوردی نے اس سے منکر احادیث نقل کی ہیں اور یہ با اعتماد نہیں کہ اس کی حدیث لکھی جائے۔ ابو زرعہ نے کہا لا بَاْسَ بِہ (لَا بَاْسَ بِه وَفِی تَهْذِیْبِ التَّهْذِیْبِ (جلد ۲ص ۱۴۸) بِلَفْظِ قَالَ اَبُوْ زُرْعَةَ:لَیْسَ بِهِ بَاْسٌ۔  جرح اور تعدیل کے قواعد کے مطابق ابن ابی ذباب مندرجہ ذیل وجوہات سے ضعیف ہے۔)اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   تقریب میں فرماتے ہیں صدوق بہم اور تہذیب التہذیب میں ہے امام مالک اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔‘‘

الف      جارح محدثین بہت ہیں اور ابو زرعہ کی تعدیل ’’لا باس بہ‘‘ مبہم، خفیف اور چوتھے درجہ کی ہے۔

ب        جرح مفسر ہے اس لئے مقدم ہے:إذَا اجْتَمَعَ فِیْ شَخْصٍ جَرْحٌ وَّتَعْدِیْلٌ فَالْجَرْحُ مُقَدَّمٌ الخ " مقدمۃ ابن الصلاح جلد:۳ ص ۹۹طبع جدید

روایت ۳۔: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   فتح الباری میں ایک اثر لائے ہیں فرماتے ہیں:

رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ وَّجْهٍ اٰخَرَ (اَیْ مِنْ طَرِیْقِ دَاودَ بْنِ قَیْسٍ) عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ یُوْسُفَ فَقَالَ إِحْدٰی وَعِشْرِیْنَ

’’اور عبد الرزاق نے اسے ایک دوسرے طریق سے روایت کیا ہے یعنی داود ابن قیس کے طریق سے جو محمد بن یوسف سے روایت کرتے ہیں:فرمایا:اکیس۔‘‘

یہ اثر بجائے اس کے کہ حنفیہ اس سے دلیل پکڑیں بلکہ ان کے مخالف ہے کیونکہ وہ ایک رکعت وتر کے قائل نہیں۔

شیخ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں۔ اس اثر میں کلام دو طرح سے ہے ایک تو یہ اثر گیارہ رکعت والے صحیح اثر کے مخالف ہے (شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہوا)

دوسرا سبب اس میں بذات خود عبد الرزاق ہے جس کے متعلق تقریب میں ہے: وقد کان عمی فی آخر عمرہ فتغیر آخری عمر میں آنکھوں کی بینائی زائل ہونے کے بعد حافظہ جاتا رہاتھا۔

اور حافظ ابو عمرو بن الصلاح نے علوم الحدیث ص ۳۵۵میں ان کا شمار مختلطین میں کیا ہے اور امام نسائی فرماتے ہیں:’’ نُظِرَ لِمَنْ کَتَبَ عَنْهُ بِاٰخِرَةٍ ‘‘

جس نے عبد الرزاق سے آخری عمر میں لکھا ہے اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی جائے۔ مختلطین کے متعلق علماء اصول الحدیث کا قانون یہ ہے کہ جس نے اختلاط سے پہلے ان سے حدیث لی قبول کی جائے گی اور جس نے اختلاط کے بعد لی رد کر دی جائے گی۔ اگر معلوم نہ ہو سکے کہ آیا یہ روایت قبل از اختلاط ہے یا بعدِ از اختلاط تو پھر بھی رد کر دی جائے گی۔ اور زیر بحث اثر اسی قبیل سے ہے۔ وَاللهُ تَعَالٰی اَعْلَمُ

روایت ۴۔: سنن کبری بیہقی جلد ۲ص ۴۹۶میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے ہے۔

عَنِ السَّائِبِ ابْنِ یَزِیْدَ قَالَ:کَانُوْا یَقُوْمُوْنَ عَلٰی عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رَضِیَ اللهُ عَنْهُ) فِیْ شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَةً قَالَ:وَکَانُوْا یَقْرَءُوْنَ بِالْمِئِیْنِ وَکَانُوْا یَتَوَکَّئُوْنَ عَلٰی عِصِیِّهِمْ فِیْ عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (رَضِیَ اللهُ عَنْهُ) مِنْ شِدَّةِ الْقِیَامِ

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں لوگ ماہ رمضان میں بیس رکعت پڑھا کرتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ مئین سورتیں پڑھتے اور حضرت عثمانؓ کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے۔‘‘

یہ اثر کئی وجہ سے ضعیف ہے۔

الف۔ اس کی سند میں ابو عبد اللہ محمد بن حسین بن فنجویہ دینوری ہے اس کی ثقاہت ثابت نہیں ہو سکی فَمَنِ ادَّعٰی الصِّحَّةَ فَعَلَیْهِ بِالدَّلِیْلِ

ب۔ دوسرے راوی یزید بن خصیفہ کو امام احمد نے منکر الحدیث کہا ہے جس کا معنی امام احمد کے نزدیک یہ ہے کہ وہ راوی غریب احادیث بیان کرتا ہو۔ اس حدیث میں یزیداپنے سے اوثق (محمد بن یوسف) کی مخالفت کرتا ہے جس نے عمرؓ بن الخطاب سے صحیح سند سے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اس لئے یزید بن خصیفہ کی روایت شاذ"حافظ ابن کثیر نے امام شافعی سے شاذ کی تعریف یہ نقل کی ہے۔ وَهُوَ اَنْ یَرْوِی الثِّقَةُ حَدِیْثًا یُّخَالِفُ مَا رَوٰی النَّاسُ اور تقریب نووی میں ہے۔ فَإِنْ کَانَ بِتَفَرُّدِه مُخَالِفًا اَحفَظَ مِنهُ َاَضْبطََ کَانَ شَاذًّا مَّرْدُوْدًا" حافظ ابن حجررحمتہ اللہ علیہ  تقریب التہذیب میں محمد بن یوسف کو ثقہ ثبت اور یزید بن خصیفہ کو صرف ثقہ کہتے ہیں۔ ان کے نقابلی الفاظ میں محمد بن یوسف کا زیادہ ثقہ ہونا واضح ہے۔" ہونے کی وجہ سے۔

ج۔ یہ روایت مضطرب ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی اپنی کتاب ’’صلاۃ التراویح‘‘میں روایت نقل فرماتے ہیں:

فَقَالَ إِسْمٰعِیْلُ بْنُ اُمَیَّةَ:إَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ یُوْسُفَ ابْنَ اُخْتِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ اِخْبَرَه (قُلْتُ:فَذَکَرَ مِثْلَ رِوَایَةِ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ یُوْسُفَ ثُمَّ قَالَ ابنُ اُمَیَّةَ): قُلْتُ:اَو َاحِدٍ وَّعِشْرِیْنَ؟ قَالَ (یَعْنِیْ مُحَمَّدَ بْنَ یُوْسُفَ):لَقَدْ سَمِعَ ذٰلِكَ مِنَ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ ابْنُ خَصِیْفَةَ، فَسَاَلْتُ (السَّائِلُ هُوَ إسْمَاعِیْلُ بْنُ اُمَیَّةَ) یَزِیْدَ بْنَ خَصِیْفَةَ؟ َقَالَ:حَسِبْتُ اَنَّ السَّائِبَ قَالَ:اَحَدٍ وَّعِشْرِیْنَ:قُلْتُ:وَسَنَدُه صَحِیْحٌ

یعنی ’’جب اسماعیل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے گمان(اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیس رکعات وتر سمیت (۱+۲۰) اور بیس رکعات وتر بغیر یزید بن خضیفہ کا صرف گمان ہے جب کہ محمد بن یوسف کو گیارہ پر یقین ہے۔ اسمٰعیل ابن امیہ (سائل) نے بھی ابن یوسف پر ہی اعتماد کیا ہے جیسا کہ اس کی گیارہ رکعت والی روایت (عند النیسا بوری) سے ظاہر ہے۔)ہے (یعنی یقین نہیں) کہ سائب بن یزید نے اکیس رکعات کہا ہے (سند صحیح ہے) یہ حنفیہ پر حجت ہے کیونکہ تین وتر کی صورت میں رکعات تراویح اٹھارہ ۱۸ رہ جائیں گی۔ اس طرح یزید بن خصیفہ کی روایت میں بیس ۲۰ اور اٹھارہ ۱۸کی وجہ سے اضطراب ہو گا۔‘‘

دیگر کئی آثار حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی طرف نسبت کئے جاتے ہیں لیکن وہ سب متکلم فیہ ہیں۔ ایسے ہی بعض آثار حضرت علی، ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود کی طرف منسوب ہیں لیکن کوئی بھی جرح وقدح سے خالی نہیں۔

اس لئے اقرب إلی الصواب یہی ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہیں جیسا کہ حضرت عائشہؓ و جابرؓ وغیرہ کی صحیح احادیث میں گزر چکا ہے۔

حافظ جلال الدین سیوطی رسالہ ’’المصابیح فی صلوۃ التراویح‘‘میں امام مالک سے نقل کرتے ہیں۔

قَالَ الْجُوْدِیُّ" بعض ناقلین نے جوزی بالز اور بعض نے ابن الجوزی لکھا ہے حالانکہ صحیح جوری بالراء المہملۃ ہے۔ چنانچہ طبقات الشافعیہ ابن سبکی میں ہے: لجُوْرِیُّ بِضَمِّ الْجِیْمِ ثُمَّ الْوَاوِ السَّاکِنَةِ ثُمَّ الرّاء ِ نِسْبَةٌ اِلٰی جُوْرٍ بَلْدَةٌ مِّنْ بِلَادِ فَارِسَ۔"مِنْ اَصْحَابِنَاعَن مَّالِكٍ اَنَّه قَالَ الَّذِیْ جَمَعَ عَلَیْهِ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اَحَبُّ إِلَیَّ وَهُوَ إحْدٰی عَشَرَةَ رَکَعَةً وَّهِیَ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قِیْلَ لَه:إِحْدٰی عَشَرَةَ رَکْعَةً بِالْوِتْرِ قَالَ:وَلَا ادْرِیْ مِنْ ایْنَ اُحْدِثَ هَذَا الرُّکوْعُ الْکَثِیْرُ

’’ہمارے اصحاب میں سے جوری مالک سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں۔ جس شی پر حضرت عمر بن الخطاب نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔ وہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اور وہ گیارہ رکعت ہیں۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا کیا گیارہ رکعت بمعہ وتر؟ فرمایا:ہاں اور تیرہ رکعت بھی قریباً اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ یہ کثرت تعداد رکعت کہاں سے بدعت نکال لی ہے۔‘‘

مندرجہ بالا ساری بحث سے ثابت ہوا کہ رکعات تراویح میں سنت نبوی اور تعاملِ صحابہ(فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ کے شارح امام لحنفیہ ابن الہمام فرماتے ہیں: إِنَّ مُقْتَضٰی الدَّلِیْلِ کَوْنُ الْمَسْنُوْنِ فِیْهَا مِنْهَا ثَمَانِیَةً (فتح القدیر ج ۲ ص۳۲ ) یعنی دلیل شرعی سے مسنون رکعات تراویح آٹھ ہی ہیں۔)آٹھ رکعت ہے۔

بعض علماء نے سنت نبوی آٹھ رکعت تسلیم کر لینے کے باوجود صحابہ سے بیس رکعات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان روایات کا ضعف ناظرین ملاحظہ فرما چکے ہیں، نیز یہ بات قابل غور ہے کہ آٹھ رکعت سنت نبوی ثابت ہو جانے کے بعد بعض صحابہ کا عمل(واضح رہے کہ یہ ساری بحث سنیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے رکعات کی تعداد مسنون کے متعلق ہے ورنہ اگر کوئی شخص سنت مؤکدہ کے ارادہ سے آٹھ پڑھ کر بہ نیت نوافل جس قدر زیادہ پڑھنا چاہے اس کے لئے جائزہ ہے جن کا اجراسے الگ ملے گا مگر ان نوافل کے کوئی تعداد مقرر (نبیﷺ) یا صحابہ سے ثابت نہیں بلکہ صحابہ سے مختلف تعداد میں نوافل نقل کئے جاتے ہیں۔ مثلاً چھتیس اور چالیس۔ چنانچہ امام ابن الہمام فرماتے ہیں والْبَاقِیْ مُسْتَحَبًّا  یعنی آٹھ سے زیادہ مستحب رکعات ہیں۔ (ادارہ) اگر بالفرض وہ زیادہ ثابت کر بھی دیں تو اس کی کیا پوزیشن ہو گی؟ انہیں إِنَّ خَیْرَ الْهَدْیِ هَدْیُ مُحَمَّدٍﷺ  مد نظر رکھنا چاہئے۔ صحابی شارع نہیں ہوتا کہ وہ مستقلاً قابل اتباع ہو۔ هٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:706

محدث فتویٰ

تبصرے