السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حرم مکی یا مدنی میں صلوٰۃ التراویح بیس رکعت پڑھی جاتی ہیں۔ وہاں کے مفتی صاحب فرما رہے تھے کہ امام کے ساتھ پوری نماز پڑھنا ضروری ہے اور یہ بھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں بیس رکعت پڑھی گئی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’عَلَیکُم بِسُنَّتِی وَ سُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ المَهدِیِّینَ ‘(سنن ابن ماجه،بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ المَهدِیِّینَ،رقم:۴۲)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب اصل کے اعتبار سے نمازِ تراویح فرض نہیں، تو پھر امام کے ساتھ ساری پڑھنی کیسے ضروری ہوگی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور بالخصوص عہد ِ فاروقی میں بیس رکعت پڑھنا ثابت نہیں۔ البتہ مؤطا امام مالک میں بیس رکعت کے بجائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے گیارہ رکعت کا پڑھنا بسند صحیح ثابت ہے۔ (مؤطا امام مالک،مَا جَاء َ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ،رقم:۳۷۹)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ تھا۔ نصاً ہو یا استنباطاً ان کا طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً مختلف نہ تھا۔ اس لیے بعد میں ضمیر مفرد کے ساتھ فرما دیا:
’ تَمَسَّکُوا بِهَا وَ عَضُّوا عَلَیهَا بِالنَّوَاجِذِ ‘(سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی لُزُومِ السُّنَّةِ،رقم:۴۶۰۷)
اگر صحابہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ علیحدہ علیحدہ ہوتا توحدیث میں’بِهِمَا، اور ’عَلَیهِمَا‘ تثنیہ کی ضمیر ہوتی۔ جملہ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، صلوٰۃ التراویح علامہ البانی رحمہ اللہ ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب