سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(794) عورت کا نماز میں پاؤں ڈھانپنا

  • 24803
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-15
  • مشاہدات : 4827

سوال

(794) عورت کا نماز میں پاؤں ڈھانپنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں اصول الدین کی طالبہ ہوں، دورانِ تعلیم میں نے اپنے غیر ملکی اساتذہ کرام اور ساتھی طالبات کا پائوں کے اوپر والے حصے کو ڈھانپنے کے بارے میں موقف جانا کہ عورت کے پائوں کا پردے میں ہونا بالخصوص نماز میں بے حد ضروری ہے، بعد ازاں میں نے ’’فتاویٰ المرأۃ المسلمة‘‘ کا مطالعہ کیا جس کے باب ’’کتاب لباس المرأۃ فی الصلاۃ‘‘ میں شیخ ابنِ باز سوال: کی رائے اس طرح درج ہے:

’ وَ أَمَّا القَدمَانِ فَیَجِبُ سَترُهُمَا عَلٰی کُلِّ حَالٍ فِی الصَّلٰوةِ وَ لَو لَم یَکُن عِندَهَا رِجَالٌ لِأَنَّ المَرأَةَ کُلَّهَا عَورَةٌ فِی الصَّلَاةِ إِلَّا وَجهَهَا  ‘

اس سلسلے میں حوالہ (سنن ابی داوٗد، کتاب الصلاۃ ، تحفۃ ۸۵ حدیث ۶۳۹، ۶۴۰) کا درج ہے۔ برائے مہربانی اس سلسلہ میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا عورت کو اپنے پائوں ڈھانپنے چاہئیں اور بالخصوص نماز میں اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دورانِ نماز عورت کے لیے پائوں کی پُشت ڈھانپنے کے بارے میں ’’سنن ابی داوٗد‘‘ وغیرہ میں جو روایت ہے، وہ سنداً مرفوع اور موقوف دونوں طرح ضعیف ہے۔ لہٰذا قابلِ حجت نہیں۔ اس کو مرفوع بیان کرنا عبد الرحمن بن عبد اللہ بن دینار کی غلطی ہے، جب کہ موقوف بھی درست نہیں، کیونکہ اس کا مدار ’’ام محمد‘‘ پر ہے اور وہ مجہولہ ہے۔ حاکم کی روایت میں ’’عن أمہ‘‘ کی بجائے ’’عن أبیہ‘‘ کے الفاط ہیں، لیکن اس کے باپ کا ذکر کتابوں میں نہیں ملتا، شاید یہ حاکم یا ناقلین میں سے کسی کا وَہم ہے۔ بہرصورت اس بارے میں بطورِ نص کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔

جو لوگ عورت کے لیے پائوں ڈھانپنے کے وجوب کے قائل ہیں، ان کا انحصار اس کمزور دلیل پر ہے، جو ناقابلِ التفات ہے۔ لہٰذا اگر کوئی خاتون اس کا اہتمام کر لے تو بہتر ہے، ورنہ مسئلہ ہذا میں تشدد اختیار کرنا درست نہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! إرواء الغلیل لشیخنا المحدث ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ (۱/ ۳۰۴)

تعاقب مولانا ارشاد الحق اثری۔عورت کے لیے پاؤں ڈھانپنے کا حکم:

’’الاعتصام‘‘ شمارہ نمبر۱۰، جلد نمبر۵۷، کے ص:۱۴، پر اسلامک یونیورسٹی کی طالبہ کا استفتاء اور اس کا جواب شائع ہوا۔ سوال میں جن دو باتوں کے بارے میں استفسار تھا، اس کے ایک پہلو کا جواب تو محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا ثناء اﷲ خان صاحب مدنیd نے دیا۔ مگراس کے دوسرے پہلو کے جواب کی طرف انھوں نے توجہ نہیں فرمائی۔ حالاں کہ جواب کا وہ پہلو بنیادی اور اوّلیت کا حامل ہے اور اس پر دوسرے حصے کا جواب متفرع ہوتا ہے۔ اسی بناء پر جو جواب دیا گیا وہ بھی مخدوش اور محلِ نظر ہے۔

سوال کا خلاصہ خود طالبہ سمیہ عزیز صاحبہ کے الفاظ میں یہ ہے : ’’ کیا عورت کو اپنے پاؤں ڈھانپنے چاہئیں، اور بالخصوص نماز میں اس کا حکم کیا ہے ؟‘‘

چنانچہ سوال کے آخری حصہ کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا، اس کے مختصراً الفاظ یوں ہیں:

’’دورانِ نماز عورت کے لیے پاؤں کی پشت ڈھانپنے کے بارے میں ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں جو روایت ہے، وہ سنداً مرفوع اور موقوف دونوں طرح ضعیف ہے۔ لہٰذا قابلِ حجت نہیں۔ جو لوگ عورت کے لیے پاؤں ڈھانپنے کے وجوب کے قائل ہیں، ان کا انحصار اس کمزور دلیل پر ہے، جو ناقابلِ التفات ہے۔ لہٰذا اگر کوئی خاتون اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے ورنہ مسئلہ ہذا میں تشدد اختیار کرنا درست نہیں۔‘‘

ظاہر ہے کہ اس میں پہلے حصے: ’’ کیا عورت کو اپنے پاؤں ڈھانپنے چاہئیں‘‘ کا جواب نہیں۔ حالانکہ اس کی بابت راجح اور صحیح موقف یہی ہے کہ عورت کی پُشتِ پاؤں بھی سَتر ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’جو شخص تکبراً اپنا کپڑا لٹکاتاہے، قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کی طرف نظرِ رحمت سے نہیں دیکھے گا۔‘‘

یہ سُن کر حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا  نے عرض کیا: عورتیں اپنے کپڑوں سے کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’مردوں سے بالشت برابر مزید لٹکا لیا کریں۔‘‘ (سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی جَرِّ ذُیُولِ النِّسَائِ،رقم:۱۷۳۱)

انھوں نے عرض کیا، کہ یوں تو ان کے قدم ننگے ہو جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ایک ہاتھ کے برابر لٹکا لیا کریں اس سے زیادہ نہیں۔‘‘ یہ روایت ترمذی(۳/۴۷) اور ’’نسائی‘‘ وغیرہ میں سند صحیح سے مروی ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ  نے لکھا ہے:

’ وَفِی هٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی وُجُوبِ سَترِ قَدَمَیهَا ‘(السنن الکبرٰٰی للبیهقی بَابُ مَا تُصَلِّی فِیهِ المَرأَةُ مِنَ الثِّیَابِ :۲۳۳/۲، رقم:۳۲۵۳)

’’یہ حدیث دلیل ہے کہ عورت کے لیے قدموں کو ڈھانپنا واجب ہے۔‘‘

علامہ البانی رحمہ اللہ  نے اس موضوع پر مختصراً نفیس بحث کی ہے۔ شائقین اس کے لیے’’حجاب المرأۃ المسلمة‘‘ (۳۶۔۳۷) ملاحظہ فرمائیں!لکھتے ہیں:

’ وَ عَلٰی هٰذَا جَرَی العَمَلُ مِنَ النِّسَآءِ فِی عَهدِهٖ ﷺ، وَ مَا بَعدَهٗ ‘(حجاب المراة،ص:۳۷)

’’عورتوں کے لیے پاؤں ڈھانپنے پر ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدِ مبارک میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد عمل رہا ہے۔‘‘

مزید تشفی کے لیے عرض ہے۔حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ  سے دریافت کیا گیا، کہ سَتر کی تفصیل کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا:

’’سترِ عورت شرط ہے۔ یعنی ناف سے گھٹنوں تک مرد کے لیے اور عورت کے لیے سارا وجود، منہ اور ہاتھ کے سوا، پشت پاؤں تک ڈھانکنا ضروری ہے۔‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث:۲/۲۰،۲۱)

لہٰذا عورت کے لیے ضروری ہے، کہ عام حالات میں بھی پاؤں کی پشت ڈھانپ کر رکھے، کیونکہ یہ بھی ’’سَتر‘‘ میں شامل ہے اور جب عام حالت میں بھی یہ حکم ہے تو نماز میں بھی یہی حکم ہے، کہ عورت کے پاؤں کی پُشت ڈھکی ہوئی ہو۔ اس بارے میں ابوداؤد کی روایت تو بلاشبہ ضعیف ہے۔ جیسا کہ محترم حافظ صاحب﷾نے إرواء الغلیل کے حوالے سے نقل کیا ہے، مگر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم  اس روایت کا مؤید ہے۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ  نے تو کہا ہے کہ:

’ وَالاِجمَاعُ فِی هٰذَا البَابِ اَقوٰی مِنَ الخَبَرِ فِیهِ ‘(التمهید۲/۳۶۸)

’’اس بارے میں اجماع، حدیث سے زیادہ قوی دلیل ہے۔‘‘

مزید فرماتے ہیں:

’ لَا خِلَافَ عَلِمتُهٗ بَینَ الصَّحَابَةِ فِی سَترِ ظُهُورِ قَدَمَیِ المَرأَةِ فِی الصَّلَاةِ۔ وَحَسبُكَ بِمَا جَاءَ فِی ذٰلِكَ عَن اُمَّهَاتِ المُسلِمِینَ (الاستذکار:۴۴۴/۵)

’’میں، صحابہ رضی اللہ عنہم  کے ہاں عورت کے پاؤں ڈھانپنے کے بارے میں اختلاف نہیں جانتا۔ تمہارے لیے اس بارے میں امہات المسلمین سوال: کے آثار کافی ہیں۔‘‘

اس حوالے سے انھوں نے آثار کی طرف اشارہ بھی فرمایا ہے، کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  ’درع سابغ، میں نماز کا حکم دیتے تھے اور ’’درع سابغ‘‘ اسے کہتے ہیں، جو عورت کے پاؤں کو ڈھانپے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’ هُوَ قَمِیصُ المَرأَةِ الَّذِی یُغَطِّی بَدَنَهَا، وَ رِجلَیهَا، وَ یُقَالُ لَهَا سَابِغٌ۔‘( نیل الأوطار:۷۰/۲)

’’درع عورت کی اس قمیص کو کہتے ہیں جس سے اس کا بدن اور پاؤں چھپ جائیں اور اسے ’’سابغ‘‘ کہاجاتا ہے۔‘‘

یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے، کہ علامہ البانی رحمہ اللہ  نے ابو داؤد کی مذکورہ روایت کو ’’إرواء الغلیل‘‘ میں اگر ضعیف کہا ہے، تو اس کے یہ معنی قطعاً نہیں، کہ وہ عورت کے لیے نماز میں پاؤں ڈھانپنے کے وجوب کے بھی قائل نہیں ، کیونکہ امر واقعہ یہ ہے، کہ وہ اسے واجب قرار دیتے ہیں ، اور ان کا استدلال حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما  کی مذکورہ روایت پر ہے، جسے ہم امام ترمذی اور نسائی ; وغیرہ کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں۔ بلکہ وہ تو اس حوالے سے آزاد اور غلام عورت کے بارے میں بھی فرق درست نہیں سمجھتے، ان کے الفاظ ہیں:

’ وَالحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی وُجُوبِ سَترِ قَدَمَیِ المَرأَةِ۔ وَهُوَ مَذهَبُ الشَّافِعِیِّ، وَغَیرِهٖ وَأَعلَم أَنَّهٗ لَا فَرقِ فِی ذٰلِكَ بَینَ الحُرَّةِ، وَالأَمَةِ لِعَدَمِ وُجُودِ دَلِیلِ الفَرقِ ‘ الخ ( الثمر المستطاب فی فقد السنة والکتاب:۳۲۴/۱)

’’یہ حدیث عورت کے قدم ڈھانپنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور یہ امام شافعی رحمہ اللہ  وغیرہ کا مذہب ہے اور یہ بھی جان لو، کہ اس بارے میں آزاد اور غلام عورت کا کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں میں فرق کی کوئی دلیل نہیں۔‘‘

اور جو اس فرق کے بارے میں بعض احادیث ہیں، وہ ضعیف ہیں، امام مالک رحمہ اللہ  تو فرماتے ہیں: کہ اگر عورت کے پاؤں ننگے ہوں تو نماز دوبارہ پڑھے۔

مزید عرض ہے کہ اس مسئلہ میں استحباب و وجوب کی بحث سے قطع نظر دیکھا یہ جائے، کہ صحابیاتسوال: کا معمول کیا تھا اور وہ اس پاکیزہ معاشرے میں پاؤں ننگے رکھ کر چلتی اور نماز پڑھتی تھیں، یا ڈھانپ کر؟ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ  کے بیان اور حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا  کے استفسار سے تو اسی کی تائید ہوتی ہے، کہ ان کے پاؤں بہرحال ننگے نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا مسلمان عورتوں کو امہات المسلمینسوال: کی پیروی کرنی چاہیے اور مادر پدر آزاد معاشرے کی نقالی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس لیے صحیح یہی ہے، کہ عورت کے پاؤں بھی ’’سَتر‘‘ ہیں اور ان کا ڈھانپنا بھی واجب اور ضروری ہے۔ ابوداؤد کی مرفوع روایت گو ضعیف ہے، مگر اجماع اس کا مؤید ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عبد البر  رحمہ اللہ  نے کہا ہے، بلکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  کی روایت سے بھی وجوب ہی مترشح (واضح) ہوتا ہے۔

مولانا اثری ﷾ کے تعاقب پر ایک نظر

کیا دورانِ نماز عورت کے لیے پاؤں ڈھانپنے ضروری ہیں؟

۱۸/مارچ ۲۰۰۵ء کے ہفت روزہ’’الاعتصام‘‘ میں ’’راقم الحروف‘‘ کا یہ فتویٰ شائع ہوا، کہ دورانِ نماز عورت کے لیے پاؤں کی پشت ڈھانپنے کے بارے میں ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں جو روایت ہے، وہ سنداً مرفوع اور موقوف دونوں طرح ضعیف ہے۔ ہمارے فاضل محقق دوست مولانا ارشاد الحق اثری﷾ نے اس پر تعاقب فرمایا ہے۔

حدیث ہذا کا ضعف تو خیر انھوں نے بھی تسلیم کیا ہے، لیکن نفس مسئلے سے اتفاق نہیں کیا۔ سطورِ ذیل میں اس پر ایک جائزہ پیش کرنا مقصود ہے ، موصوف فرماتے ہیں:

’’حالانکہ اس کی بابت راجح اور صحیح موقف یہی ہے، کہ عورت کی پُشتِ پاؤں بھی ستر ہے۔‘‘(الاعتصام: ۵۷/۱۳،ص:۱۵)

حقیقت یہ ہے، کہ انھوں نے اپنے دعوے پر جس قدر دلائل پیش کیے ہیں، تقریباً ان سب کا تعلق عورت کے گھر سے باہر قدم رکھنے کے ساتھ ہے، کہ اس وقت پَردے کی یہ کیفیت ہونی چاہیے، جس سے کوئی اختلاف نہیں، جب کہ متنازع فیہ مسئلہ ’’ عورت کا نماز میں ستر‘‘ ہے ، جو اپنی چار دیوار ی کے اندر نمازادا کرنا چاہتی ہے ، کیا وہ اپنے قدموں کی پشت کو ڈھانپے؟

مولانا اثری﷾ کی طویل بحث و تمحیص میں مجھے اس کا مستند جواب نظر نہیں آیا، تاہم قیاس و رائے کا سہارا لیتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں:

’’لہٰذا عورت کے لیے ضروری ہے، کہ عام حالات میں بھی پاؤں کی پشت ڈھانپ کر رکھے، کیونکہ یہ بھی ’’ستر‘‘ میںشامل ہے اور جب عام حالت میں بھی یہ حکم ہے، تو نماز میں بھی یہی حکم ہے، کہ عورت کے پاؤں کی پُشت ڈھکی ہوئی ہو‘‘

مسئلے کی جو شق ’’راقم الحروف‘‘ نے عمداً حذف کردی تھی، اس کے بیان کی ضرورت انھیں اس لیے پیش آئی کہ ان کی نگاہ میں دونوں صورتیں باہم مربوط(ملی ہوئی) اور حکماً ایک جیسی ہیں۔ حالانکہ دونوں میں بڑا واضح فرق ہے، جس کی تفصیل آگے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کے کلام میں آئے گی۔ موصوف بنیادی طور پر خلطِ مبحث کا شکار ہو گئے ہیں، حالانکہ مباحث کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا ہی اصحاب علم کی ذمہ داری ہے ، مگر اس فرق تک ان کی رسائی نہ ہو سکی، مزید برآں کہ ضعیف روایت کو سہارا دینے کے لیے انھوںنے فرمایا ہے: کہ ’’اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم  اس روایت کا مؤید ہے۔ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ  نے تو کہا ہے: کہ :’وَالاِجمَاعُ فِی هٰذَا البَابِ أَقوٰی مِنَ الخَبرَ فِیهِ ‘(التمہید:۳۶۸/۲)’’اس بارے اجماع حدیث سے زیادہ قوی دلیل ہے۔‘‘

مزید فرماتے ہیں: ’’مَیں، صحابہ رضی اللہ عنہم  میں عورت کے پاؤں ڈھانپنے کے بارے میں اختلاف نہیں جانتا۔ تمہارے لیے اس بارے میں امہات المسلمین سوال: کے آثار کافی ہیں۔‘‘ انتہی۔

اجماع کی حقیقت:

اب دعویٰ اجماع کا جائزہ لینا بھی عدل وانصاف کے لیے ضروری ہے، تاکہ صحیح صورتِ حال واضح ہو سکے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’قرآنی آیت:﴿وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾(النور:۳۱) ’’ اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں، مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے ظاہری زینت سے مراد قدم لیے ہیں۔‘‘ حجاب المراۃ المسلمۃ ولباسھا فی الصلاۃ،ص:۷

 صحیح بخاری کے (ترجمۃ الباب)میں فقیۂ مکہ عکرمہ، مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ  کا قول درج ہے، کہ

’ لَو وَارَت جَسَدَهَا فِی ثَوبٍ لَأَجزَأَتهُ ‘

یعنی (نمازی عورت) اگر ایک کپڑے میں اپنے جسم کو ڈھانپ لے، تو اس کے لیے کافی ہے۔

نیز علامہ عینی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  کا اثر نقل کیا ہے، کہ

’ لَا بَأسَ بِالصَّلَاةِ فِی القَمِیصِ الوَاحِدِ إِذَا کَانَ صَفِیقًا۔‘

یعنی ایک ہی موٹی قمیص میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا  سے بیان کیا گیاہے، کہ انھوں نے چھوٹے کُرتے اور دوپٹے میں نماز پڑھی، ایک صحیح طریق میں ہے، کہ حضرت میمونہ  رضی اللہ عنہا  نے ایک کُرتی میں نماز پڑھی اور آستین کا بڑھا ہوا کچھ حصہ اپنے سَر پر رکھ لیا۔‘‘

ان آثار و اقوال کو علامہ موصوف نے صحیح بخاری کے’بَابٌ فِی کَم تُصَلِّی المَرأَةُ فِی الثِّیَابِ‘ کے تحت نقل کی ہے۔ عمدۃ القاری:۳۰۷/۳

نیز امام بخاری رحمہ اللہ  نے حدیث ’’الالتفاع‘‘ سے استدلال کیا ہے، کہ عورت محض ایک کپڑے کولپیٹ کر نماز پڑھ لے، تو درست عمل ہے۔ حدیث ہذا سے مأخوذ مسائل کے بارے میں علامہ عینی فرماتے ہیں:

’ مِنهَا: هُوَ الَّذِی تَرَجَّمَ لَهٗ، وَهُوَ أَنَّ المَرأَةَ إِذَا صَلَّت فِی ثَوبٍ وَاحِدٍ بِالاِلتِفَاعِ جَازَت  صَلَاتُهَا۔‘

یعنی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے، جس کے لیے مصنف نے باب قائم کیا ہے، کہ عورت جب ایک کپڑے کو لپیٹ کر نماز پڑھ لے ،تو اس کی نماز درست ہے۔

مزید فرمایا:

’ وَ قَالَ أَبُو حَنِیفَةَ، وَالثَّورِیُّ: قَدَمُ المَرأَةِ لَیسَت بِعَورَةٍ ۔ فَإِن صَلَّت، وَ قَدَمُهَا مَکشُوفَةٌ صَحَت صَلَاتُهَا ‘

’’عورت کا قدم پردے( ستر) میں شامل نہیں ہے۔ پس عورت اگر ننگے قدم نماز پڑھے تو نماز درست ہے۔‘‘

مذکورہ آثار و اقوال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ حافظ ابن عبد البر کے دعوئے اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم  کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ محض مالکی مسلک کی حمایت میں ان کی ایک کوشش ہے۔ اس کے سوا عملاً اس کا وجود نہیں۔

اب شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی تحقیق بغور ملاحظہ فرمائیں! وہ فرماتے ہیں:

’ وَ فِی الصَّلَاةِ نَوعٌ ثَالِثٌ: فَإِنَّ المَرأَةَ لَو صَلَّت وَحَدَهَا کَانَت مَأمُورَةٌ بِالاِختِمَارِ۔ وَ فِی غَیرِ الصَّلَاةِ یَجُوزُ لَهَا کَشفُ رَأسِهَا، فَأَخذُ الزِّینَةِ فِی الصَّلٰوةِ حَقُّ اللّٰهِ، فَلَیسَ لِأَحَدٍ أَن یَّطُوفَ بِالبَیتِ عُریَانًا، وَ لَو کَانَ وَحَدَهٗ بِاللَّیلِ، وَ لَا یُصَلِّی عُریَانًا، وَ لَو کَانَ وَحدَهٗ۔ فَعُلِمَ أَن أَخذَ الزِّینَةِ لَم یَکُن فِی الصَّلَاةِ لِتَحتَجِبَ عَنِ النَّاسِ فَهٰذَا نَوعٌ . وَ هٰذَا نَوعٌ۔‘

’’ نماز میں سَتر و حجاب کی ایک تیسری قسم ہے : چنانچہ عورت اگر اکیلی نماز پڑھے، تو اسے دوپٹہ لینے کا حکم ہے، جب کہ نماز کے علاوہ اسے گھر میں سَر ننگا رکھنے کی اجازت ہے۔ تو اس طرح نماز میں زینت اپنانا الله کے حق کی وجہ سے ہے۔ اسی بناء پر کسی کو برہنہ حالت میں بیت الله  کا طواف کرنے کی اجازت نہیں، خواہ وہ بوقت ِ شب اکیلا ہو اور نہ برہنہ نماز پڑھنے کی ہی اجازت ہے، خواہ اکیلا ہو۔ اس سے معلوم ہوا، کہ نماز میں زینت اپنانے کا مقصد لوگوں سے پردہ کرنا نہیں ہے۔ پردے کی یہ صورت اور ہے اور جب کہ عام حالات میں پردہ کرنا دوسری صورت ہے۔‘‘

چنانچہ نماز کی حالت میں نمازی وہ اعضاء بھی ڈھانپتا ہے، جن کا نماز کے علاوہ ظاہر کرنا جائز ہے۔ اسی طرح نماز ہی میں بعض اُن اعضاء کو ظاہر کرتا ہے، جن کا مردوں سے بھی ڈھانپنے کا حکم ہے۔

پہلی صورت کی مثال کندھے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کو ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھنے سے منع فرمایا: کہ اس کے کندھے پر چادر کا کوئی حصہ ہی نہ ہو تو یہ نماز کے حق کی وجہ سے ہے ، مگر نماز کے سوا اسے مردوں کے سامنے کندھے ننگے کرنا جائز ہے۔ اسی طرح آزاد عورت کو نماز میں دوپٹہ اوڑھنے کا حکم ہے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’ لَا یقبَلُ اللّٰهُ صَلٰوةَ حَائِضٍ اِلَّا بِخِمَارٍ۔‘( سنن ابن ماجه،بَابُ فَضلِ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ ،رقم:۶۵۵،سنن أبی داؤد،رقم:۶۴۱، سنن الترمذی، بَابٌ: مَا جَاءَ لاَ تُقبَلُ صَلاَةُ الحَائِضِ إِلاَّ بِخِمَارٍ ،رقم:۳۷۷)

’’بالغ عورت کی نماز ، اﷲ دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔‘‘

حالانکہ اسے خاوند اور محرم مردوں کے پاس دوپٹہ لینا ضروری نہیں، بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس باطنی زینت کو ظاہر کر سکتی ہے ، لیکن نماز کی حالت میں نہ وہ ان لوگوں کے سامنے سَر ننگا کر سکتی ہے، نہ دوسروں کے سامنے ، جب کہ چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا حکم اس کے برعکس ہے۔ دو اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق وہ ان اعضاء کو غیروں کے سامنے ظاہر نہیں کر سکتی۔ صرف ظاہری لباس ظاہر کر سکتی ہے۔ تاہم حکم کی منسوخی سے قبل صورتِ حال اس کے خلاف تھی۔

’ وَأَمَّا سَترُ ذَلِكَ فِی الصَّلٰوةِ ، فَلَا یَجِبُ بِاِتِّفَاقِ المُسلِمِینَ ، بَل یَجُوزُ لَهَا کَشفُ الوَجهِ بِالاِجمَاعِ، وَ إِن کَانَ مِنَ الزِّینَةِ البَاطِنَةِ۔ وَ کَذَالِكَ الیَدَانِ یَجُوزُ إِبدَاءُ هُمَا فِی الصَّلٰوةِ عِندَ جَمهُورِ العُلَمَاءِ، کَأَبِی حَنِیفَةِ، وَالشَّافِعِیِّ، وَغَیرِهِمَا۔ وَهُوَ إِحدٰی الرَّوَایَتَینِ، عَن أَحمَدِ، وَ کَذٰلِكَ القَدَمُ یَجُوزُ اِبدَائُهُ عِندَ أَبِی  حَنِیفَةِ وَهُوَ الأَقوٰی۔ فَاِنَّ عَائِشَةَ جَعَلَتهُ مِنَ الزِّینَةِ الظَّاهِرَةِ۔ قَالَت:﴿وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ (النور:۳۱)

’’جہاں تک نماز میں ان اعضاء کو ڈھانپنے کا تعلق ہے، تو مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے، کہ یہ واجب نہیں، بلکہ اس بات پر اجماع ہے ،کہ وہ نماز میں چہرہ ننگا کر سکتی ہے،۔ اگرچہ اس کا شمار باطنی زینت میں ہوتا ہے۔ اسی طرح جمہور علماء کے نزدیک وہ نماز میں ہاتھ بھی کھلے رکھ سکتی ہے، جیسا کہ امام ابوحنیفہ، اور شافعی او ر دیگر علماء سے منقول ہے، اور امام احمد سے بھی ایک روایت یہی ہے ۔اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے نزدیک پاؤں ننگے کرنا جائز ہے اور یہ نقطۂ نظر قوی تَر ہے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا  نے اسے ظاہری زینت میںشمار کیا ہے، اور اس پر یہ آیت پڑھی’’ اور وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو (از خود) ظاہر ہو۔‘‘

نیز فرماتی ہیں کہ

فتخ سے مرادبہ روایت ابن ابی حاتم چاندی کے وہ چھلے ہیں، جو پاؤں کی انگلیوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ عورتیں شروع شروع میں اپنے پاؤں ظاہر کرتی تھیں، جس طرح چہرے اور ہاتھوں کو ظاہر کرتی تھیں۔ چنانچہ وہ اپنے دامن لٹکا کر رکھتی تھی۔ عورت جب پیدل چلتی، تو کبھی اس کا پاؤں ظاہر ہو جاتا تھا۔ کیونکہ وہ موزے اور جوتے پہن کر نہیں چلتی تھیں، جب کہ نماز میں ان اعضاء کا ڈھانپنا تو نہایت تنگی اورمشکل کا باعث ہے۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا  کا کہنا ہے، کہ عورت اتنے لمبے کپڑے میں نماز پڑھے جس سے اس کے پاؤں کا ظاہری حصہ چھپ جائے۔ البتہ جب سجدے میں جائے گی، تو اس کے پاؤں کا اندرونی حصہ از خود ظاہر بھی ہو سکتا ہے۔

’ وَ بِالجُملَةِ فَقَد ثَبَتَ بِالنَّصِّ، وَالاِجمَاعِ أَنَّهٗ لَیسَ عَلَیهَا فِی الصَّلٰوةِ أَنَّ تَلبِسَ الجِلبَابَ الَّذِی یَستُرُهَا إِذَا کَانَت فِی بَیتِهَا ، وَ إِنَّمَا ذٰلِكَ إِذَا خَرَجَت ، وَ حِینَئِذٍ فَتُصَلِّی فِی بَیتِهَا۔ وَ إِن بَدَاَ وَجهُهَا۔ وَ یَدُهَا، وَقَدَمَاهَا، کَمَا کُنَّ یَمشِینَ اَوَّلًا قَبلَ الأَمرِ بِإِدنَاءِ الجَلَابِیبِ عَلَیهِنَّ ، فَلَیسَتِ العَورَةُ فِی الصَّلٰوةِ مُرتَبِطَةً بِعَورَةِ النَّظرِ لَا طَرِدًا وَ لَا کِسًا۔‘

’’خلاصہ یہ ہے کہ نص اور اجماع سے یہ ثابت ہو چکا ہے، کہ عورت جب گھر میں ہو، تو اس کے لیے یہ ضروری نہیں،  کہ نماز میں ایک بڑی چادر سے اپنا سارا بدن ڈھانپ لے ۔یہ حکم اس وقت ہے جب وہ گھر سے باہر جائے۔ وہ گھر میں نماز پڑھ سکتی ہے، خواہ اس کا چہرہ ، ہاتھ اور پاؤں کھلے ہوئے ہوں۔ جیسے وہ جلباب( بڑی چادر) لٹکانے کے حکم سے پہلے پیدل چلتی تھیں۔ چنانچہ نماز میں ستر کا حکم نگاہوں سے ستر حاصل کرنے کے حکم سے مربوط نہیں، نہ موافق میں اور نہ مخالف میں۔‘‘

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ  نے جب یہ فرمایا: کہ ظاہری زینت سے مرادلباس ہے، تو انھوں نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ عورت تمام کی تمام پردہ کے لائق ہے،  حتی کہ ناخن بھی۔ بلکہ یہ تو امام احمد رحمہ اللہ  کا قول ہے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ نماز میں عورت اسے ڈھانپے۔چنانچہ فقہاء اسے ’’سترۃ العورۃ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں، جب کہ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  کے الفاظ نہیں، نہ کتاب و سنت ہی میں کوئی ایسی نص ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ نمازی جن اعضاء کو ڈھانکتا ہے، اسے عورۃ (لائقِ پردہ چیز) کا حکم حاصل ہے۔ بلکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿خُذُوا زِینَتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِدٍ﴾ (الاعراف:۳۱) ’’ ہر مسجد کے پاس اپنی زینت کو اپناؤ۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے برہنہ بدن آدمی کو بیت اﷲ کا طواف کرنے سے منع فرمایا، تو اس حالت میں نماز بالأولیٰ ممنوع ہوگی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے حکم کے بار ے میں دریافت کیا گیا، تو آپ نے فرمایا: أَوَ لِکُلِّکُم ثَوبَانِ؟‘( صحیح مسلم،بَابُ الصَّلَاۃِ فِی ثَوبٍ وَاحِدٍ وَصِفَۃِ لُبسِہِ ،رقم:۵۱۵)’’کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو دو کپڑے ہیں؟‘‘

آپ نے ایک کپڑے کے بارے میں فرمایا: کہ اگر وہ وسیع ہو تو اسے پورے بدن پر اوڑھ لو اور اگر تنگ ہو تو اس کا تہہ بند بناء لو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات سے منع فرمایا، کہ کوئی ایک کپڑے میں اس طر ح نماز پڑھے، کہ اس کے کندھے پر اس میں سے کچھ بھی نہ ہو، تو یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ آدمی کے لیے یہ حکم ہے، کہ وہ نماز میں پردے کے لائق اعضاء کو ڈھانپے، جیسے ران وغیرہ۔ اگرچہ ہم دوسرے مرد کے لیے ان اعضاء کا دیکھنا جائز قرار دیتے ہیں۔

مزید آگے چل کر فرماتے ہیں:

’ وَهٰذَا کَمَا أُمِرَ المُصَلِّی بِالطَّهَارَةِ، وَالنَّظَافَة،ِ وَالطِّیبِ، فَقَد أَمَرَ النَّبِیَّﷺ اَن تُتَّخَذَ المَسَاجِدُ فِی البُیُوتِ، وَ تُنظَفَ، وَ تُطَیَّبَ ، وَ عَلٰی هٰذَا فَیَستَتِرُ فِی الصَّلٰوةِ أَبلَغَ مِمَّا یَستَتِرُ الرَّجُلَ مِنَ الرَّجُلِ ، وَالمَرأَةُ مِنَ المَرأَةِ…۔‘

’’یہ ایسے ہی ہے جیسے نماز کے لیے طہارت ،صفائی اور خوشبو لگانے کا حکم ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات کا حکم دیا ہے، کہ گھروں میں مسجدیں بنائی جائیں، ان کی صفائی ، پاکیزگی اور خوشبو کا خیال رکھا جائے۔ا س بناء پر نماز میں سترِ اعضاء کا اہتمام اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے، جتنا مرد مرد سے اور عورت عورت سے کرتی ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ عورت کو نماز میں دوپٹہ اوڑھنے کا حکم ہے۔ جہاں تک چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا تعلق ہے، تو عورت کو ان اعضاء کو غیروں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ہے، جب کہ عورتوں اور محرم مردوں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔

پس معلوم ہوا، کہ ستر کی یہ قسم وہ نہیں جو مرد کا مرد سے اورعورت کا عورت سے ستر ہوتا ہے، جس سے بے حیائی اور اعضاء کو ننگا کرنے کی قباحت کی وجہ سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ یہ بے حیائی کی طرف لے جانے والے ابتدائی امور میں سے ہے۔ تو ان کے ظاہر کرنے سے ممانعت بے حیائی کے ابتدائی امور سے ممانعت ہے جیسے کہ اس آیت میں اﷲ نے فرمایا:﴿ذٰلِكَ اَزْکٰی لَهُمْ﴾ کہ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے اور ’’آیۃ الحجاب‘‘ میں فرمایا:﴿ذٰلِکُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ﴾ (الاحزاب:۵۳) کہ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ طہارت کا باعث ہے۔

چنانچہ اس سے ممانعت ’’سَدِّذریعہ ‘‘کے قبیل سے ہے، اس لیے نہیں، کہ یہ مطلق پردے کے لائق چیز ہے ، نہ نماز میں نہ نماز کے علاوہ۔ تو یہ ہے اس کی اصلی حقیقت۔

نماز میں عورت کو ہاتھ ڈھانپنے کا حکم دینا انتہائی بعید از قیاس بات ہے ، ہاتھ بھی ویسے ہی سجدہ کرتے ہیں جیسے چہرہ سجدہ کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں عورتوں کی قمیصیں ہوتیں اور وہ انھیں قمیصوں میں کام کاج کرتی تھیں۔ چنانچہ عورت آٹا پیستے، گوندھتے اور روٹیاں پکاتے وقت اپنے ہاتھ کھلے رکھتی تھی۔

’ وَ لَو کَانَ سَترُ الیَدَینِ فِی الصَّلٰوةِ وَاجِبًا لَبَیَّنَهُ النَّبِیُّﷺ ، وَ کَذٰلِكَ القَدَمَانِ ، وَإِنَّمَا اُمِرََ بِالخِمَارِ فَقَط مَعَ القَمِیصِ، فَکُنَّ یُصَلِّینَ فِی قَمِیصِهِنَّ، وَ خُمُرِهِنَّ ، وَاَمَّا الثَّوبُ الَّذِی کَانَتِ المَرأَةُ تُرخِیهِ ، وَ سَأَلنَ عَن ذٰلِكَ النَّبِیَّﷺ فَقَالَ: ’شِبرًا، فَقُلنَ إِذَا تَبدُو اَسوٰقُهُنَّ! فَقَالَ: ’ذِرَاعٌ لَا یَزِدنَ عَلَیهِ، وَ قَولُ عُمَرِ بنِ رَبِیعَةَ۔

کُتِبَ القَتلُ وَالقِتَالُ عَلَینَا وَ عَلَی الغَانِیَاتِ جَرُّ الذّیُولِ

یعنی اگر نماز میں ہاتھوں کا ڈھانپنا واجب ہوتا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی وضاحت فرما دیتے۔ یہی حکم قدموں کا ہے ، انھیں قمیض کے ساتھ محض دوپٹے کا حکم دیا گیا ہے۔ تو عورتیں اپنی قمیضوں اور دوپٹوں میں نماز پڑھا کرتی تھیں۔

جہاں تک اس کپڑے کا تعلق ہے، جسے عورت لٹکا کر رکھتی ہے اور اس کے متعلق صحابیات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت بھی کیا تھا، کہ وہ کتنا کپڑا لٹکائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ایک بالشت۔ عورتوں نے کہا، کہ اس صورت میں تو پنڈلیاں ظاہر ہوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ایک کلائی کی مقدار( تک لٹکالیں) اوراس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔ عمر بن ربیعہ کا شعر ہے کہ ’’ہم پر جنگ و جدال فرض کیا گیا ہے اورعورتوں پر دامن کا لٹکانا۔‘‘

یہ اس وقت حکم ہے، جب وہ گھروں سے باہر جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا، کہ عورت اگر گندی جگہ سے دامن گھسیٹ کر گزرے تو کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’یُطهِّرُهٗ مَا بَعدَه (سنن ابن ماجه،بَابُ الأَرضِ یُطَهِّرُ بَعضُهَا بَعضًا ،رقم:۵۳۱)

’’صاف جگہ سے گزرنا اسے پاک کردیتا ہے۔‘‘

مگر گھر کی چار دیواری میں توعورتیں اس قسم کا لباس نہیں پہنتی تھیں، جس طرح بعد میں عورتوں نے پنڈلیاں ڈھانپنے کے لیے گھر سے باہر موزے پہننے شروع کردیے تھے، جب کہ گھروں میں وہ موزے نہیں پہنتی تھیں۔ اسی بناء پر انھوں نے کہا تھا، کہ اگر ایک بالشت دامن لٹکانے سے پنڈلیاں ظاہر ہوں تو؟ گویا ان کا مقصود پنڈلیوں کا ڈھانپنا تھا( نہ کہ قدموں کا)۔ کیونکہ کپڑا جب ٹخنوں سے اوپر ہو گا، تو پیدل چلتے وقت پنڈلی ظاہر ہو گی۔

روایت کیا گیا ہے :’ أَعرُوا النِّسَاء َ یَلزَمنَ الحِجَالَ‘(المجعم الکبیر للطبرانی،رقم:۱۰۶۳، المعجم الاوسط،رقم:۳۰۷۳ )

’’ عورتوں کو برہنہ کرو تاکہ وہ گھروں میں ٹھہرنا لازم کرلیں۔‘‘

یعنی اگر اس کے پاس باہر جانے کے لیے مناسب لباس ہی نہیں ہوگا، تو وہ گھر میں ٹھہرنا لازم کرلے گی۔

مسلمانوں کی عورتیں گھروں میں نماز پڑھا کرتی تھیں،جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’ لَا تَمنَعُو إِمَاءَ اللّٰهِ مَسَاجِدَ اللّٰهِ، وَ بُیُوتُهُنَّ خَیرٌ لَهُنَّ  ‘(صحیح البخاری،بَابُ هَل عَلَی مَن لَم یَشهَدِ الجُمُعَةَ …الخ ،رقم:۹۰۰، صحیح مسلم،بَابُ خُروجِ النِّسَاء ِ إِلَی المَسَاجِدِ إِذَا لَم یَتَرَتَّب …الخ،رقم:۴۴۲)

’’اﷲ کی باندیوں کو اﷲ کی مسجدوں( میں نماز پڑھنے) سے مت روکو، البتہ ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘

انھیں قمیضوں کے ساتھ صرف دوپٹے اوڑھنے کا حکم تھا، انھیں ایسی چیز پہننے کا حکم نہیں دیا گیا، جس سے وہ اپنے پاؤں ڈھانپیں ، نہ موزے کا حکم دیا گیا نہ جراب کا اور نہ ہاتھوں کو ڈھانپنے کے لیے دستانے وغیرہ پہننے کا حکم دیا گیا۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ عورت کے لیے نماز میں ان اعضاء کا ڈھانپنا واجب نہیں ہے، جب وہاں غیر مرد نہ ہوں۔‘‘ (انتہیٰ)

ان دلائل کی روشنی میں مولانا اثری(﷾) کو میرا مشورہ ہے، کہ اپنے موقف پر نظر ثانی فرمائیں۔ ساری خیر وبرکت اسی میں ہے۔ عورت کے پورے جسم کو جس قید و بند میں آپ جکڑنا چاہتے ہیں شرعاً و عملاً اس کا کوئی وجود نہیں۔

جس دور کی عورتوں کو بمشکل ایک چادر میسر آتی تھی ، انھیں ہر وقت دستانوں اور جرابوں کا پابند کرنا قرین قیاس نہیں۔اﷲ رب العزت ہم سب کی راہنمائی فرمائے۔(آمین)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:668

محدث فتویٰ

تبصرے