سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(792) عورت اور مرد کی نماز میں کیا فرق ہے؟

  • 24801
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1421

سوال

(792) عورت اور مرد کی نماز میں کیا فرق ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت اور مرد کی نماز میں کیا فرق ہے؟ ایک کتاب ہاتھ لگی ہے جس میں ایک عنوان رکھا ہے (خواتین کا طریقۂ نماز) جس میں انھوں نے اُمّ درداء والی حدیث:’أَنَّ أُمَّ الدَّردَاء ِ، کَانَت تَجلِسُ فِی الصَّلَاةِ کَجِلسَةِ الرَّجُلِ‘(مصنف ابن ابی شیبۃ،فِی المَرأَۃِ کَیفَ تَجلِسُ فِی الصَّلَاۃِ؟، رقم: ۲۷۸۵،صحیح البخاری،بَابُ سُنَّۃِ الجُلُوسِ فِی التَّشَہُّدِ، قبل رقم:۸۲۷)کہ اُمّ درداء نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھی۔‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ اس حدیث سے عورت کی نماز مرد کے برابر ہونے پر استدلال کرنا کئی وجہ سے درست نہیں ہے:

۱۔         اگرچہ حافظ مزی رحمہ اللہ  نے ان کو صحابیہ کہا ہے لیکن دوسرے محدثین نے ان کو تابعیہ کہا ہے۔ لہٰذا یہ صحابیہ نہیں تابعیہ ہے اور ایک تابعی کا عمل اگرچہ اصول کے مطابق ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔

۲۔        اگر صحابیہ بھی شمار کیا جائے تب بھی ان کی اپنی رائے ہے انھوں نے کسی صحابیہ کو دعوت نہیں دی۔ انھوں نے اس فعل پر نہ ہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور نہ ہی خلیفہ راشد کا فتویٰ نقل کیا ہے۔

دراصل سوال یہ ہے کہ مولانا عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ  کے ’’فتاویٰ غزنویہ‘‘، ’’فتاویٰ علمائے اہل حدیث‘‘ میں یہ بات درج ہے کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی اشرف المدارس والوں نے لکھا ہے کہ غیر مقلد اہل حدیثوں کو عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ  کا فتویٰ نظرنہیں آتا؟ ’’بیہقی‘‘ اور ’’کنز العمال‘‘ میں حدیث ہے:

’ عَن یَزِیدَ بنِ أَبِی حَبِیبٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ مَرَّ عَلٰی امرَأَتَینِ فَقَالَ اِذَا سَجَدتُمَا فَضُمَّا بَعضَ اللَحمِ اِلَی الاَرضِ فَاِنَّ المَرأَةَ لَیسَت فِی ذٰلِکَ کَالرَجُلِ (‘السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ مَا یُستَحَبُّ لِلمَرأَةِ مِن تَركِ ،رقم:۳۲۰۱)

’ عَن عَبدِ اللّٰهِ بنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ : اِذَا جَلَسَتِ المَرأَةُ لِلصَّلٰوةِ وَضَعَت فَخِذَهَا عَلٰی فَخِذِهَا الاُخرٰی وَ اِذَا سَجَدَت اِلصَقَت بَطنَهَا فِی فَخذَیهَا کَاَستُرِ مَا یَکُونَ لَهَا وَ اِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی یَنظُرُ اِلَیهَا وَ یَقُولُ یَا مَلَائِکَتِی اُشهِدُ کُم اِنِّی قَد غَفَرتُ لَهَا۔‘( السنن الکبریٰ للبیهقی ،بَابُ مَا یُستَحَبُّ لِلمَرأَةِ مِن تَرکِ التَّجَافِی فِی الرُّکُوعِ ،رقم:۳۱۹۹)

علماء اہلِ حدیث کے اکابر اس حدیث کے ساتھ فتویٰ دیتے رہے ہیں۔مولانا عبد الجبار مرحوم اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اسی پر تعامل اہل سنت و مذاہب اربعہ وغیرہ چلا آیا ہے۔ غرض یہ کہ عورتوں کا انضمام اور انخفاض احادیث اور تعامل جمہور اہلِ علم از مذاہب اربعہ وغیرہ سے ثابت ہے اور اس کا مُنکر کتب احادیث اور تعامل اہلِ علم سے بے خبر ہے۔ واﷲ اعلم(عبد الجبار غزنوی) (فتاویٰ غزنویہ،ص:۲۷۔۲۸۔ فتاویٰ علمائے اہلِ حدیث ج:۳،ص:۱۴۸)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرع میں مرد اور عورت کا طریقۂ نماز ایک جیسا ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

صحیح بخاری میں حدیث ہے :

’ صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی‘(صحیح البخاری،بَابُ الأَذَانِ لِلمُسَافِرِ، إِذَا کَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَکَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمعٍ… الخ،رقم:۶۳۱)

(اے میری امت اس طرح نماز پڑھو) جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو،

یعنی ہو بہو میرے طریقے کے مطابق نماز پڑھو۔ حدیث ہذا کا عموم امت کے سب مردوں اور سب عورتوں کو شامل ہے اور جن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے وہ ضعیف ہیں۔ قابلِ حجت و استدلال نہیں۔ مثلاً ایک روایت میں ہے، کہ عورت کو سجدہ میں پیٹ وغیرہ ملا کر رکھنا چاہیے۔ اس کے بارے میں علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ یہ مرسل غیر صحیح ہے۔ اسے ابوداؤد نے ’’مراسیل‘‘ میں یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے۔(صفة الصلاۃ)

مشہور مصنف مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ بہت عورتیں سجدہ میں بازو بچھا لیتی ہیں، پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھتی ہیں اور دونوں قدموں کو بھی زمین پر کھڑا نہیں کرتیں۔ واضح ہو کہ یہ طریقہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان اور سنت پاک کے خلاف ہے۔ سنیے! حضرت انس رضی اللہ عنہ  کی روایت سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’ لَا یَبسُطُ اَحَدُکُم ذِرَاعَیهِ اِنبِسَاطَ الکَلبِ ‘(صحیح البخاری،بَابُ لاَ یَفتَرِشُ ذِرَاعَیهِ فِی السُّجُودِ ،رقم:۸۲۲ وصحیح مسلم،بَابُ الِاعتِدَالِ فِی السُّجُودِ، وَوَضعِ الکَفَّینِ عَلَی …الخ ،رقم:۴۹۳)

یعنی ’’نہ بچھائے کوئی تمہارا (مرد یا عورت) دونوں بازو اپنے (سجدے میں) جس طرح کتا بچھاتا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حضور کے اس فرمان سے صاف عیاں ہے، کہ نمازی( مرد یا عورت) کو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر دونوں کہنیاں، یعنی بازو زمین سے اُٹھا کر رکھنے چاہئیں ، پیٹ بھی رانوں سے جدا رہے اور سینہ بھی زمین سے اونچا ہو۔ (صلوٰۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ) نیز علامہ شوکانی’’نیل الأوطار‘‘ میں رقمطراز ہیں، کہ یہ جانناچاہیے، کہ اس سنت(رفع یدین) میں مرد اور عوت برابر کے شریک ہیں اور کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے دونوں کے مابین فرق ثابت ہو۔اس طرح دونوں کے ہاتھ اٹھانے کی مقدار کوئی دلیل نہیں ہے۔ احناف سے مروی ہے، کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں کندھوں تک کیونکہ اس میں ان کے لیے سَتر(پردہ) ہے، مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ (بحوالہ تخریج صلوٰۃ الرسولﷺ ،ص:۲۲۷۔۲۲۸)

 صحیح بخاری کے’’ترجمۃ الباب‘‘میں اُمّ الدرداء کے أثر کے اصل الفاظ یوں ہیں:

’ وَ کَانَت أُمُّ الدَّردَائِ تَجلِسُ فِی صَلَاتِهَا جَلسَةَ الرَّجُلِ۔ وَ کَانَت فَقِیهَةً ‘(صحیح البخاری،بَابُ سُنَّةِ الجُلُوسِ فِی التَّشَهُّدِ، قبل رقم:۸۲۷)

یعنی ’’اُمّ درداء اپنی نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی اور وہ فقیہ تھی۔‘‘

بلاشبہ اُمّ درداء تابعیہ ہے، کیونکہ مکحول راوی کا سماع تابعیہ صغریٰ سے ہے۔ کبریٰ صحابیہ سے نہیں۔ اس اعتبار سے یہ اثرِ تابعیہ ہوا، جو جمہور کے نزدیک حجت نہیں، لیکن حیران کن بات یہ ہے، کہ حنفیہ، جنھوں نے اس کو موجود علت کی بناء پر ردّ کیا ہے، ان کے نزدیک تو مرسل تابعی قابلِ حجت ہے۔ ان کا انکار فہم سے بالاتر ہے۔ اپنے معروف قاعدہ کی بناء پر حنفیہ کا عمل تو اثر ہذا کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔ دراصل یہ سب تقلیدی جمود کی کرشمہ سازی ہے۔ جس سے اﷲ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔ آمین!

واضح ہو کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اثر ہذا کو بطورِ دلیل پیش نہیں کیا، بلکہ ان کا طریقہ کار یہ ہے، کہ جب دلیل عام ہو اور اس عموم کے مطابق بعض علماء کا عمل ہو، تو اس اثر کے ساتھ وہ دلیل کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ اثر اکیلا قابلِ حجت نہیں ہوتا۔ اس بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ وَلَم یُورِدِ البُخَارِیُّ اَثرَ أُمِّ الدَّردَائِ لِیَحَتَجَّ بِهٖ، بَل لِلتَقوِیَةِ  ‘فتح الباري:۳۰۶/۲

یعنی بخاری نے اُمّ درداء کا اثر بطورِ دلیل و حجت کے ذکر نہیں کیا، بلکہ مقصود اس سے(عمومی دلائل سے ثابت شدہ مسئلہ کو) تقویت دینا ہے۔

ہمار ے شیخ کے شیخ امام عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ  کا فتویٰ واقعی فتاویٰ علمائے حدیث (۳/۱۴۸۔۱۴۹) پر درج ہے۔ لیکن انھوں نے جن روایات پر مسئلہ ہذا کی بنیاد رکھی ہے، وہ کمزور اور ناقابلِ حجت ہیں۔(کما سبق)

دوسری بات یہ ہے، کہ مسلک اہلِ حدیث کتاب و سنت سے تمسّک کا نام ہے، قطع نظر اس بات کے، کہ مذاہب اربعہ کی اس میں موافقت ہو یا مخالفت۔ اسی بناء پر محققین اہلِ علم جیسے: امام بخاری، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن قیم، علامہ شوکانی اور صنعانی رحمتہ اللہ علیہم وغیرہ نے مسائل کی تحقیق میں دلائل کی روشنی میں آزادانہ طریقۂ کارکو اختیار کیا ہے ، جو امت مسلمہ کے لیے بیش بہا خزانہ ہے۔

مختصراً سابقہ مستندات کی رُو سے میرے نزدیک محقق مسلک یہ ہے، کہ عورت اور مرد کے طریقۂ نماز میں کوئی فرق نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:665

محدث فتویٰ

تبصرے