سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(773) ظہر کی نماز سے رہ جانے والا اگر عصر کی باجماعت نماز میں شامل ہو تو …؟

  • 24782
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1582

سوال

(773) ظہر کی نماز سے رہ جانے والا اگر عصر کی باجماعت نماز میں شامل ہو تو …؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 (۱)اگر ظہر کی نماز رہ جائے اور مسجد میں آدمی اس وقت پہنچے جب عصر کی جماعت ہو رہی ہو تو کیا وہ پہلے ظہر کی نماز ادا کرے گا یا جماعت کے ساتھ شامل ہو کر نماز عصر ادا کرے گا اور اس کے بعد نماز ظہر ادا کرے گا اس طرح حدیث

لَا صَلٰوةَ بَعدَ العَصرِ (سنن ابن ماجه،بَابُ النَّهْیِ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ،رقم:۱۲۴۹) کے خلاف تو نہ ہو گا؟

(۲)…اگر کسی شخص کی نماز مغرب رہ گئی ہے اور جب مسجد میں پہنچا تو عشاء کی جماعت ہو رہی ہو۔ تو کیا وہ پہلے نماز مغرب ادا کرے گا یا جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے گا؟ اور وِتر ادا کرنے کے بعد نماز مغرب ادا کرے گا۔ اس طرح ’لَا صَلَاةَ بَعدَ الوِترِ‘ کے خلاف تو نہیں ہو گا؟ ہمارے ہاں اس بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں۔

1۔        پہلے نماز مغرب پڑھے پھر جماعت میں شامل ہو ، وہ نماز مسجد میں پڑھ لے یا گھر جا کر پڑھے پھر مسجد میں آجائے۔ اس طرح اگر مسجد میں پڑھے گا تو امام کی آواز آئے گی اور نماز نہ ہو گی۔ اگر گھر جائے گا تو عشاء کی جماعت ختم ہو جائے گی اور جماعت کے ثواب سے محروم ہو گا۔

2۔        پہلے جماعت میں شامل ہو اور سنتوں سے فارغ ہو کر وتروں سے پہلے نماز مغرب ادا کرے اور پھر وِتر ادا کرے۔ اس طرح نماز عشاء کی ترتیب ٹوٹ جائے گی۔

3۔        نماز عشاء مکمل ادا کرنے کے بعد نماز مغرب کی قضاء دے۔ کیا اس طرح ’’ لَا صَلٰوةَ بَعدَ الوِترِ‘‘ کے خلاف نہ ہو گا؟ کیونکہ وہ نماز فرضی تھی اور وہ اگلے دن سورج نکلنے سے پہلے ادا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ ’لَا صَلٰوةَ بَعدَ صَلٰوةِ الفَجرِ‘"(صحیح مسلم،بَابُ الْأَوْقَاتِ الَّتِی نُهِیَ عَنِ الصَّلَاةِ فِیهَا، رقم:۸۲۷)سے ظاہر ہوتا ہے۔ کیا اسے یقین ہے کہ وہ اتنا وقت زندہ رہ سکے گا؟

جناب محترم! ان تین اقوال میں سے کون سا قول اقرب الی السنۃ ہے ؟ اور اگر اس سے بہتر کوئی حل ہو تو بیان فرما کر احسان فرمائیں!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی حالت میں مقتدی پہلے عصر کی نماز ادا کرے۔ بعد میں ظہر پڑھے۔ حدیث میں ہے:

’ اِذَا اُقِیمَتِ الصَّلٰوةُ فَلَا صَلَوةَ إِلَّا الَّتِی أُقِیمَت ۔‘(مسند أحمد،رقم:۸۶۲۳)، شرح مشکل الآثارللطحاوی ، رقم:۴۱۲۸،۴۱۲۹ ، و قال الشوکانی فی ’’نیل الأوطار‘‘ قال العراقی: (إسناده حسن)

یعنی ’’جب اقامت ہو جائے تو کوئی نماز نہیں مگر وہی جس کی اقامت ہو ئی ہے۔‘‘

جہاں تک اس پر اعتراض کا تعلق ہے، کہ عصر کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے میں بعض قباحتیں نظر آتی ہیں۔ مثلاً حدیثلَاصَلٰوةَ بَعدَ العَصرِ‘کے منافی ہے ۔ دوسرا ، ترتیب معکوس ہو جاتی ہے۔ سو اس اِشکال کا جواب یوں ہے، کہ شرع میں فوت شدہ نماز کا کوئی وقت متعین نہیں۔ حسبِ توفیق قطع نظر ممنوعہ اوقات کے ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے۔ مزید آنکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عصر کے بعد ظہر کے نوافل کی قضائی بھی ثابت ہے، اور فجر کے فرائض کے بعد پہلی دو رکعتیں پڑھنے کا جواز بھی منقول ہے۔ جب ممنوع وقت میں نوافل کی قضائی دی جاسکتی ہے تو فوت شدہ فرضوں کی قضاء بطریقِ أولیٰ جائز ہونی چاہیے۔ دوسرا ، ترتیب کا اہتمام وہاں ہو گا، جہاں کوئی عارضہ (رکاوٹ) لاحق نہ ہو۔ زیرِبحث محل و مقام میں مذکور حدیث کی بناء پر پہلے حاضر نماز ادا کی جائے۔ پھر فوت شدہ۔اسی طرح مغرب کی نماز بھی عشاء کے فرضوں کے بعد اور وتروں سے پہلے ادا کی جائے تاکہ وِتر رات کی آخری نماز بن سکیں۔ ’’ صحیح مسلم میں حدیث ہے:

’ اِجعَلُوا آخِرُ صَلٰوتِکُم بِاللَّیلِ وِترًا ‘(صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةُ اللَّیلِ مَثنَی مَثنَی، وَالوِترُ رَکعَةٌ مِن آخِرِ اللَّیلِ،رقم:۷۵۱، سنن ابی داؤد،رقم:۱۴۳۸)

یعنی رات کی آخری نمازِ وِتر بناؤ۔

آپ کے درج کردہ الفاظ قریباً اسی حدیث کا مفہوم ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ عشاء کے فرض اور وِتر میں ترتیب ضروری نہیں بلکہ رات کی ساری نماز سے وتروں کو مؤخر کرنا ہی أفضل الامورہے۔

اس مقام پر علماء کا دوسرا گروہ اس بات کا بھی قائل ہے، کہ عصر اور عشاء کے امام کی اقتداء میں بالترتیب ظہر اور مغرب کی نیت بھی ہو سکتی ہے۔ گویا کہ ان کے نزدیک دونوں طرح اختیار ہے۔ ان کے پیشِ نظر بھی بعض دلائل ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ ایک تو ترتیب ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ دوسرا اگر کوئی شخص اس حالت میں مَرجائے تو فوت شدہ نماز کے بارے میں ذمہ دار ٹھہرے گا، جب کہ حاضر فرض ساقط ہو جائے گا۔ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس طرح انسان مکروہ وقت میں قضائی سے بھی بچ جاتا ہے۔ جو مستحسن فعل ہے۔

لہٰذا عصر کے امام کی اِقتداء میں ملنے والا پہلے ظہر پڑھے پھر عصر کی نماز ادا کرے گا اور عشاء کے امام کی اقتداء میں مغرب کی تیسری رکعت میں تشہد بیٹھ جائے۔ جب امام عشاء کی چوتھی رکعت سے فارغ ہو تو اس کے ساتھ اکٹھے سلام پھیرے یا پہلے ہی سلام پھیر کر اپنے کو فارغ کرلے۔ لیکن اس میں امام کی مخالفت لازم آتی ہے جو درست بات نہیں۔

اس طرح پہلے قول پر تعمیل کی صورت میں مذکورۃ الصدر حدیث کی مخالفت لازم آتی ہے اور گھر لوٹ کر نماز پڑھنے سے اپنے کو جماعت کے اجر و ثواب سے محروم کرنا ہے، جو عاقل فہیم کے شایانِ شان نہیں۔ تیسرے قول میں بھی جواز کا پہلو غالب ہے، کیونکہ فوت شدہ نماز کی قضائی کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ ہروقت دی جا سکتی ہے ۔ حدیث میں ہے:

’ فَإِذَا سَهٰی أَحَدُکُم عَن صَلٰوةٍ، فَلیُصَلِّهَا حِینَ یَذکُرُهَا، وَ مِنَ الغَدِ لِلوَقتِ ‘(سنن أبی داؤد، باب مَن نَامَ عَن صَلَاةٍ اَو نَسِیَهَا،رقم:۴۳۷، سنن الترمذی ، بَابُ مَا جَائَ فِی النَّومِ عَنِ الصَّلٰوةِ،رقم:۱۷۷)

صاحب ’’العون‘‘ رقمطراز ہیں:

’ مَعنَاه أنَّهٗ یُصَلِّیَ الصَّلٰوةَ الفَائِتَةَ حِینَ یَذکُرُهَا فَاِذَا کَانَ الغَدُ یُصَلِّی صَلٰوةَ الغَدِ فِی وَقتِهَا المُعتَاد  ‘ (۱۶۸/۱)

’’ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے ،کہ فوت شدہ نماز جب بھی کسی کو یاد آئے پڑھ لے اور دوسرے دن اپنے مقررہ وقت پر پڑھنی چاہیے۔‘‘

سوال کے اخیر میں آپ کے مقرر کردہ مفروضے کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ شرع میں قضائی کا جواز ہروقت موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کتاب ’’صلوٰۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ تعلیقات حافظ عبد الرؤف ص (۳۵۰، ۳۵۱) اور فتاویٰ اہلحدیث(۶۱/۳)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:653

محدث فتویٰ

تبصرے