سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(717) نماز کے بعد باجماعت دعا

  • 24726
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 738

سوال

(717) نماز کے بعد باجماعت دعا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب مَن نماز کے بعد باجماعت دعا کے متعلق آپ کا فتویٰ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہوا تھا جس کے مطابق باجماعت نماز کے بعد باجماعت دعا مانگنے کی کوئی صحیح حدیث معلوم نہ ہونے کاذکر تھا۔ جس کی بناء پر بندہ نے نماز کے بعد باجماعت دعا ترک کردی۔ مگر ہمارے ایک عزیز نے ’’صلوٰۃ الرسول‘‘ مصنفہ مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ  سے باجماعت دُعاء کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کے مطلوبہ صفحہ کی فوٹو کاپی ساتھ ارسال کر رہا ہوں۔ براہِ کرم اس صفحہ کا جائزہ لے کر یہ ارشاد فرمائیں کہ کیا ان احادیث یا ضعیف احادیث سے اس طرح کے عمل کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ یا اُن ضعیف احادیث کے ملنے سے کوئی عمل جائز ہو سکتا ہے۔ جن احادیث کے خلاف کوئی صحیح حدیث نہ ملتی ہو؟

صلوٰۃ الرسول کی عبارت: ’’فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ۔‘‘ درست ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’مَا مِن عَبدٍ بَسَطَ کَفَّیهِ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلٰوةٍ ، ثُمَّ یَقُولُ: اَللّٰهُمَّ إِلٰهِی، وَ إِلٰهَ إِبرَاهِیمَ، وَ إِسحٰقَ، وَ یَعقُوبَ، وَ إِلٰهَ جِبرِیلَ، وَ مِیکَائِیلَ ، وَ إِسرَافِیلَ۔ أَسئَلُكَ تَستَجِیبُ دَعوَتِی فَإِنِّی مُضطَرٌّ، وَ تَعصِمُنِی فِی دِینِی ، فَإِنِّی مُبتَلِیئٌ ، وَ تَنَالُنِی بِرَحمَتِكَ۔ فَاِنِّی مُذنِبٌ، وَ تَنفِی عَنِّی الفَقرَ  فَإِنِّی مُذنِبٌ ، وَ تَنفِی عَنِّی الفَقرَ  فَاِنِّی مُتَمَسِّكٌ إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ أَن لَا یَرُدَّ یَدَیهِ خَائِبَتَینِ ‘عمل الیوم واللیلة لابن سنی

’’ جو بندہ ہر نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہے۔’اَللّٰھُمَّ الٰہِی وَ اِلٰہَ اِبرَاھِیمَ…الی آخِرِہٖ‘ تو خدا تعالیٰ اس کے ہاتھوں کو نہیں پھیرتا نامراد۔‘‘

حضرت عامر رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں:

’ صَلَّیتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِﷺ الفَجرَ فَلَمَّا سَلَّمَ اِنحَرَفَ ، وَ رَفَعَ یَدَیهِ وَ دَعَا…‘

’’میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام پھیرا تو قبلہ کی طرف سے منہ پھیر کر( مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر) دونوں ہاتھ اٹھا کردعا مانگی۔‘‘ فتاویٰ نذیریہ بحوالہ ابن ابی شیبہ

ملاحظہ: معلوم ہوا کہ امام کا سلام پھیر کر مقتدیوں کی طرف منہ کرکے دعا مانگنا درست ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے جواز کے سلسلہ میں جناب محمد آصف عزیز سلفی نے ہمیں کتاب ’’صلوۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ مؤلفہ مولانا محمد صادق سیالکوٹی مرحوم کے دو صفحوں کی فوٹو سٹیٹ ارسال کی ہے ۔ جن میں بزعم خود اس امر کے جواز کا ثبوت ہے۔ اس پر بالاختصار ہماری گزارشات ملاحظہ فرمائیں!

امام ابن سنی کی ’’عمل الیوم واللیلۃ ،رقم:۱۳۸‘‘کے حوالہ سے نقل کردہ روایت کی سند میں تین عِلّتیں موجود ہیں۔

۱۔         اسحاق بن خالد راوی کے بارے میں ابن عدی نے ’’الکامل‘‘(۳۳۷/۱) میں اور امام ذہبی رحمہ اللہ  نے ’’میزان الاعتدال فی نقد اسماء الرجال‘‘(۱۹۰/۱) میں کہا ہے: ’’یہ بہت ساری منکر روایات بیان کرتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ضعیف ہے۔

۲۔        اس کی سند میں عبد العزیز بن عبد الرحمن ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: کہ یہ ثقات سے بہت ساری مقلوب اور اثبات کی طرف غلط منسوب احادیث بیان کرتا ہے۔ پھر دلائل سے اس امر کی وضاحت کی ہے۔ المجروحین:۱۳۸/۲

عبد اﷲ بن امام احمد کا بیان ہے ’’مجھے میرے والد نے اس کے بارے میں فرمایا: اس کی احادیث کو کاٹ دو۔ یہ جھوٹی ہیں یا یوں فرمایا کہ یہ من گھڑت ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ابن عدی سے بیان کیا ہے، کہ عبدالعزیز بن عبد الرحمن کی خصیف سے بیان کردہ روایات باطل ہیں۔ تہذیب التہذیب:۱۴۴/۳

اس امر کی تصریح خصیف کے ترجمہ میں کی ہے۔

۳۔        حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:’’عبد العزیز نے خصیف کے واسطہ سے انس رضی اللہ عنہ  سے منکر حدیث بیان کی ہے اور خصیف کا انس رضی اللہ عنہ  سے سماع معلوم نہیں ہو سکا۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’’صدوق سیّیٔ الحفظ۔ ضعّفہ أحمد۔‘‘ خصیف صدوق، خراب حافظہ والا ہے۔ امام احمد نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ ’’الکاشف‘‘(۲۸/۱)  ابن حبان نے کہا ہے، انصاف کی بات یہ ہے، کہ اس کو ترک کردیا جائے۔ المجروحین:۱/۲۸۷

اور دوسری حدیث ابن ابی شیبہ(۳۰۲/۱،رقم:۳۰۹۳)  میں ہے اس کی سند حسن درجہ کی ہے، لیکن اصل کتاب میں ’’انصرف‘‘ کے بعد’’ورفع یدیہ، ودعا‘‘کے الفاظ نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ روایت قابلِ استدلال ہی نہ ٹھہری، اس کے باوجود ان روایات میں مروّجہ اجتماعی دعا کا تذکرہ تک نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ فرض نماز کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا عام معمول انفرادی ذکر و اذکار اور دعائیں پڑھنا تھا ، جس طرح کہ بہت ساری روایات میں وارد ہے۔ اسی کو لازم پکڑنا چاہیے۔ الخَیرُ کُلُّ الخَیرِ فِی الاِتِّبَاع۔

باقی رہی یہ بات کہ ضعیف حدیث فضائلِ اعمال میں قابلِ اعتبار ہے یا ضعیف کے بالمقابل صحیح  نہ ہو تو اس پر بھی عمل رَوَا ہے۔ یہ بڑی پُرفریب اور پرکشش بات ہے۔ اس کی آڑ میں بہت سارے لوگ من گھڑت اور موضوع روایات کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار تصور کرتے ہیں، جس طرح کہ واقعات شاہد ہیں۔ بالخصوص روافض اور بریلوی قبوری مسلک کی بنیاد ہی اس پر ہے۔ یہ عقیدہ و مسلک بیش بہا خرابیوں کا باعث اور دین میں اضافہ کاموجب بناء ہے۔ شریعت کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ چاہے بظاہر کتنا ہی خوبصورت اور مزخرف محل کیوں نہ نظر آئے۔ یاد رہے تار عنکبوت کا سہارا لینا دراصل بدعات و خرافات کا دروازہ کھولنا ہے۔ جو سراسر خسارے کاسودا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جو شَے رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں دین نہ تھی۔ وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتی۔‘‘

اصل صورتِ حال یہ ہے، کہ ضعیف روایات پچاس سے زائد اقسام پر مشتمل ہیں۔ جن کی طرف حافظ ابن الصلاح نے ’’علوم الحدیث‘‘ میں اشارہ کیا ہے اور ’’توضیح الأفکار شرح تنقیح الأنظار‘‘ میں اس کی جملہ تقاسیم کی تفاصیل موجود ہیں، جن کی معرفت سے اربابِ ذوق کے لیے صحیح منزل کا تعین کرنا سہل و آسان ہو جاتا ہے۔ ویسے محققین اہلِ علم تو مطلقاً ضعیف روایت کو ناقابلِ عمل تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ اصولِ حدیث کی مشہور کتاب ’’قواعد التحدیث‘‘ میں علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں۔ ’’ ائمۂ حدیث کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ ضعیف پر عمل مطلقاً ناجائز ہے۔(خواہ مسئلہ وجوبی ہو یا استحبابی) ان میں سے ابن معین، بخاری، مسلم، ابوبکر ابن العربی وغیرھم ہیں۔ ابن حزم کی بھی یہی تحقیق ہے۔‘‘

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ائمہ میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ کسی ضعیف حدیث سے کسی شئی کو واجب یا مستحب قرار دینا جائز ہے اور جو یہ کہتا ہے، وہ اجماع کی مخالفت کرتا ہے۔ القاعدۃ الجلیلة،ص:۸۴

اور نواب صدیق حسن خاں اپنی عربی تفسیر ’’فتح البیان فی مقاصد القرآن‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:’’وہ شخص غلطی پر ہے، جو عقیدہ رکھے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف احادیث کو بھی لینا جائز ہے اب ہم بعض محدثین کی ضعیف احادیث کی روایت اور شرائط پر بعض گزارشات پیش کرتے ہیں۔ حافظ سخاوی رحمہ اللہ  حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کے حوالہ سے فرماتے ہیں:ہم نے اپنے اُستاذ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  سے کئی بار سنا اور انھوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کردیا کہ ضعیف حدیث پر عمل کے لیے تین شرطیں ہیں۔ پہلی جس پر اتفاق ہے یہ ہے، کہ ضعف شدید نہ ہو، تاکہ جھوٹوں اور جھوٹ کے ساتھ متہم، اور جن سے روایت حدیث میں بڑی غلطیاں ہوئیں، سے احتراز ہوجائے اور دوسری یہ ہے کہ وہ حدیث ایک عام اصل کے تحت ہو، تاکہ جس حدیث کا کوئی اصل صحیح ثابت نہ ہو، اس سے بچا جا سکے۔ تیسری شرط یہ ہے، کہ اس حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے سنت ہونے کا عقیدہ نہ ہو، کیونکہ اس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف وہ بات منسوب ہو جائے گی، جو آپ نے نہیں فرمائی۔‘‘

 ان شرائط کی علیحدہ علیحدہ تشریح بھی پیشِ خدمت ہے۔ پہلی شرط کا معنی یہ ہے، کہ ضعیف حدیث پر عمل کے لیے حدیث کی حالت کی واقفیت ضروری ہے، تاکہ شدید ضُعف سے بچا جا سکے۔ اس شرط کو پیشِ نظر رکھ کر غور فرمائیے، کہ ہمارے ہاں آج وہ لوگ کتنی تعداد میں ہیں، جو احادیث کی صحت کے معیار کو سامنے رکھ کر گفتگو کر سکیں۔ خصوصاً احوالِ رواۃ کے سلسلہ میں جب مختلف ائمہ کی طرف سے جرح و تعدیل کا اختلاف ہوتا ہے، تو اس میں ترجیح دینا کتنا مشکل امر ہے؟ کُجا یہ کہ راوی کی عدالت اور ضبط کی باریکیوں کو سامنے رکھ کر معیارِ حدیث کے متعلق کوئی پختہ رائے قائم کی جائے۔ ہم یہ نہیں کہتے، کہ یہ کام ناممکن ہے، لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس معیار کا فیصلہ کرسکنے والے بہت کم لوگ ہوں گے۔ نتیجتاً ضعف ِ شدید اور ضعف ِ خفیف کا امتیاز مِٹ جائے گا اور بیشتر دفعہ ضعف ِ شدید نظر انداز کر دیا جائے گا۔

اور دوسری شرط کا معنی یہ ہے، کہ ضعیف حدیث میں مذکور مسئلہ کا اصل صحیح حدیث سے ثابت ہو، مثلاً کوئی عمل اصلاً تو صحیح حدیث سے مشروع ہے، لیکن اس پر ثواب کا ذکر ضعیف حدیث میں آیا ہو۔ غور فرمائیے! کہ بات عمل کی ہو رہی تھی اور عمل صحیح حدیث سے مشروع ہے۔ حالانکہ ثواب کا تعلق انسان سے نہیں، وہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ ضعیف احادیث پر عمل سے کیا فرق پڑا؟ اصل عمل تو صحیح حدیث پر ہے ضعیف پر نہیں۔

تیسری شرط پر عمل کا مطلب یہ ہے، کہ ضعف ِ خفیف کے باوجود اس مسئلہ پر عمل کرتے وقت اس کے شرعی ہونے کا عقیدہ نہ رکھے، کیونکہ شرع کے ثبوت کے لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  سے نقل صحیح اور ثبوت ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا شرائط سے نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ صحیح حدیث کے علاوہ ضعیف پر عمل جائز نہیں۔ مسئلہ ہذا پر سیر حاصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو! ماہنامہ محدث لاہور جلد۹عدد:۱۔۲، میںشائع شدہ ہمارا تفصیلی فتویٰ ’’بعض آیاتِ قرآنی کا جواب‘‘ (ص:۳ تا۲۳)

اس فتویٰ کا امتیازی پہلو یہ ہے، کہ یہ اہلِ علم کی مختلف تحریروں اور نظریات کے علاوہ نقد و تبصرہ سے مزین ہے۔ لاحق اور وارد شکوک و شبہات کا علمی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:605

محدث فتویٰ

تبصرے