سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(709) نماز کے بعد اجتماعی دعا کی حیثیت

  • 24718
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 751

سوال

(709) نماز کے بعد اجتماعی دعا کی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیانماز سے فارغ ہوکر آدمی دعامانگ سکتا ہے ؟ درج ذیل حدیث کی وضاحت فرمادیں:

’ اَنَّ عَبدَ اللّٰهِ بنَ الزُّبَیرِ رَاَی رَجُلًا رَافِعًا یَدَیهِ قَبلَ اَن یَّفرُغَ مِن صَلٰوتِهٖ فَلَمَّا فَرَغَ مِنهَا قَالَ: اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ لَم یَکُن یَرفَعُ یَدَیهِ حَتّٰی یَفرَغَ مِن صَلٰوتِهٖ ‘رجاله ثقات مجمع الزوائد ص ۱۴۹

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  نے ایک شخص کودیکھاکہ نماز ختم ہونے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر دعامانگ رہا ہے تو نماز کے بعدآپ نے اس سے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کے بعد ہی ہاتھ اٹھاتے تھے‘‘ (اس کے سب راوی ثقہ ہیں)

نیز فتاوی اہلحدیث جلد نمبر ا ص ۱۹۰ فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۵۴۴ میں بھی ہے کہ یہ دعا شرعا درست اور مستحب ہے۔ تو اگرآپ کہیں کہ نماز کے بعد دعا کرنے کے ثبوت میں جو حدیثیں آتی ہیں وہ ضعیف ہیں تو عرض ہے حدیث ’اِنَّمَا الاَعمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘  بھی ضعیف ہے اور نماز عید کی پہلی رکعت میں سات تکبیروں اور دوسری میں پانچ تکبیروں والی روایت بھی ضعیف ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب ایک حدیث چاہے وہ ضعیف ہو اگر اس کے خلاف کوئی حسن صحیح روایت نہ ہو تو وہ حدیث ضعیف بھی احادیث کے قوانین کے مطابق حسن اور صحیح حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ بتلایئے کہ دعانہ کرنے کے متعلق کون سی صحیح احادیث ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روایت ہذا کی سند کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں ہو سکی، کہ وہ صحیح ہے یا غیر صحیح۔ کسی حدیث کے راوی ثقہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا، کہ حدیث صحیح ہے۔ امکان ہے کہ ا س کی سند میں انقطاع ہو ، یا اس میں کوئی اور مدلس راوی ہو، جس نے تحدیث یا سماع کی صراحت نہ کی ہو۔لہٰذا وہ لوگ جو محض رواۃ کے ثقہ ہونے پر حدیث کو صحیح سمجھ بیٹھے ہیں، وہ غلطی میں مبتلا ہیں۔ حافظ ھیثمی کی عادت ہے، کہ وہ ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کرتے ہیں۔ طبرانی کے شیوخ کے بارے میں ہیثمی کا نرالا اصول ہے۔ وہ مجمع الزوائد کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں:

’’طبرانی کے وہ شیوخ جن کا ذکر ’’میزان الاعتدال للذہبی‘‘ میں ہے، ان کے ضعف کے بارے میں، میں نے آگاہ کر دیاہے، اور جو اس میں (میزان میں) نہیں ان کو میں نے ثقات میں شمار کیاہے۔‘‘

دوسری بات یہ ہے، کہ اس حدیث میں اجتماعی دعا کا ذکر نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اس سے انفرادی دعا پر استدلال ہو سکتاہے۔ فتاوی اہلحدیث اور فتاوی نذیریہ میں ذکر کردہ دلائل محل نظر ہیں۔ مثلاً فتاوی نذیریہ اور فتاوی اہلحدیث میں بحوالہ ابن ابی شیبہ روایت ہے، کہ سیدنا عامر کہتے ہیں: میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی جب آپ نے سلام پھیرا تو قبلہ کی طرف سے منہ پھیر کر (مقتدیوں کی طرف متوجہ ہوئے) ’رَفَعَ یَدَیہِ، وَ دَعَا‘’’دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی۔‘‘ علامہ عبید اللہ رحمانی  رحمہ اللہ حدیث ہذا پر طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں: ’’مذکورہ تفصیل سے واضح ہوگیا، کہ مختصر اور مُطَوَّل دونوں میں سے کسی روایت میں بھی ’وَرَفَعَ یَدَیہِ، وَدَعَا‘ کی زیاتی موجود نہیں‘‘

ویسے بھی یہ روایت عامر سے نہیں، بلکہ یزید بن ابی مسعود عامری سے مروی ہے اور باقی دلائل بھی ضعف کی بناء پر لائقِ استدلال نہیں۔ ان کا ضعف فتاوی اہلحدیث میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتاہے، (۱۹۳/۲۔۱۹۳)

 راجح بات یہ ہے، کہ فضائل واعمال میں ضعیف حدیث ناقابلِ اعتبار ہے۔ ’’محدث ‘‘ کے کسی شمارے میں مسئلہ ہذا پر ہم تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں۔ ا سکی طرف مراجعت مفیدہے۔ واضح ہو کہ ہمارے شیوخ محدث روپڑی اور محدث گوندلوی نماز کے بعد اجتماعی دعا کے عملاً قائل و فاعل نہ تھے، الا یہ کہ کسی کی طرف سے دعا کی درخواست ہو ۔ چنانچہ مقتدیوں میں سے کسی کے تقاضے پر یا امام کی کسی ضرورت اور مطالبے پر اجتماعی دعاکرنا جائز ہے۔ جبکہ اسے نمازوں میں معمول بناء لینا خلاف سنت رسول ہے۔ حدیث ’اِنَّمَا الاَعمَالُ‘ …صحیح ہے، لیکن ا س میں دعا کا کہاں تذکرہ ہے؟ اس روایت کو یہاں پیش کرنا بغیر محل ہے۔ عیدین کی تکبیروں والی روایت شواہد کی بناء پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو! إرواء الغلیل (۱۰۷/۳/ ۶۳۹) اور سواطع القمرین فی تخریج احکام العیدین (۱۴۵۔۱۵۲)

اہلِ علم میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ ضعیف حدیث عدمِ تعارض کی بناء پر حسن اور صحیح حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔ امام مسلم مقدمہ صحیح مسلم میں فرماتے ہیں :

’’جو شخص ضعیف حدیث کا ضعف جاننے کے باوجود بیان نہیں کرتا ، وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گنہگار ہے اور عوام الناس کو دھوکہ دیتا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے، کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا ان میں سے اکثر احادیث اکاذیب ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو۔ جب کہ صحیح احادیث اس قدر ہیں، کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ضعیف اور مجہول اسانید والی احادیث جاننے کے باوجود محض اس لئے روایت کرتے ہیں، کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہاجائے، کہ ان کے پاس کتنی احادیث ہیں اور اس نے کتنی کتابیں تالیف کردی ہیں۔ جو شخص علم کے معاملے میں یہ روش اختیار کرتا ہے، اس کے لئے علم میں کچھ حصہ نہیں ہے اور اسے عالم کہنے کی بجائے، جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔

نماز کے بعد دعا کرنے کی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے یہ فعل درست نہیں۔ کیونکہ عبادات اصلاً توقیفی ہیں۔ یعنی شریعت کی بیان کردہ ہی ہیں۔ ان میں کسی کی مرضی، خواہش اور منشا کا کوئی دخل نہیں۔

ضروری وضاحت اور شکریہ:  ہفت روزہ الاعتصام ۱۲ جنوری ۲۰۰۱ء کے احکام ومسائل میں بسلسلہ اجتماعی دعا بعد از فرائض حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما  کا ایک اثر ذکر ہوا تھا ،کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز ختم ہونے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہا تھا تو نماز کے بعد آپ نے اس سے فرمایاکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ہی ہاتھ اٹھاتے تھے، روایت ہذا کے متعلق آگاہی سے میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا، بعدمیں بعض احباب نے مجھے محترم حافظ ابوطاہر زبیر علی زئی dکی تحقیق سے آگاہ کیا کہ یہ أثر ’’جامع المسانید‘‘ حافظ ابن کثیر میں موجود ہے لیکن سلیمان العطار کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس مخلصانہ کاوش اور توجہ دلانے پر میں ان حضرات کا بے حد شکر گزار ہوں۔(حافظ ثناء اللہ خان مدنی)

تعاقب: ’’الاعتصام‘‘ کے بعض فتویٰ پر تعاقب اور ان کا جائزہ: گزشتہ دنوں سندھ سے سید محمد قاسم شاہ صاحب بن پیر محب اللہ شاہ راشدیؒ کی طرف سے ایک مراسلہ ملا جس میں انہوں نے میرے ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہونے والے چار مختلف فتووں پر تعاقب فرمایا ہے۔ ان کے سوالات اور جوابات ترتیب وار ذیل میں ملاحظہ فرمائیں!(ثناء اللہ مدنی)

محترم المقام جلیل القدر جناب حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب (سلمک اللہ سبحانہ وتعالیٰ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے کہ مزاج عالی مع الخیر ہوں گے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:598

محدث فتویٰ

تبصرے