سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(688) قعدۂ اخیرہ میں درود شریف پڑھنے کا حکم

  • 24697
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2031

سوال

(688) قعدۂ اخیرہ میں درود شریف پڑھنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قعدۂ اخیرہ میں درود شریف پڑھنا کسی حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے؟ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول، فعل یا تقریر سے با حوالہ وضاحت فرما دیں، نیز اگر کسی صحابی کا عمل بھی ہو تو اُس کا حوالہ دے دیں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ درود شریف کے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس قول کی بھی وضاحت فرما دیں۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ فِی الدَّارَینِ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

’’صحیح بخاری بَابُ اَلصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِیِّ ﷺ کے تحت حدیث میں کعب بن عجرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں یہ تو معلوم ہو گیا، کہ آپ پر سلام کیسے بھیجنا ہے۔ اب یہ فرمائیے : کہ آپ پر ’’درود‘‘ کیسے پڑھیں؟ فرمایا: ’’کہو!

’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ… الخ ‘صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،رقم:۶۳۵۷

الفاظ حدیث سے ظاہر ہو رہا ہے، کہ جب سلام کا تعلق ’’تشہد نماز‘‘ سے ہی ہے، تو ’’درود‘‘ کا تعلق بھی نماز سے ہے جس کی یہاں تعلیم دی گئی ہے۔ حدیث ہذا عموم کے اعتبار سے دونوں تشہدوں کو شامل ہے۔ دوسری روایت میں ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک آدمی کو دیکھا، کہ نماز میں تمجید و تحمید کے بغیر دعا کرنے لگا۔ فرمایا: ’’اس نے جلدی کی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُسے بلایا، اور فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے، تو چاہیے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، پھر درود بھیجے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’چاہیے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ پھر جو چاہے دعا کرے۔‘‘سنن أبی داؤد،بَابُ الدُّعَاء ِ،رقم:۱۴۸۱، المستدرک علی الصحیحین للحاکم،رقم :۸۴۰ و صححہ

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ اس تشہد میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود بھیجنا واجب ہے ،کیونکہ آپ نے اس بات کا حکم دیا ہے۔ امام شافعی اور امام احمد (دو روایتوں میں سے آخری روایت کے مطابق) وجوب کے قائل ہیں اور ان سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم   وغیرہ سے بھی ایک جماعت اسی بات کی قائل ہے۔ صفۃ الصلاۃ، ص ۱۶۲

وجہِ استدلال یہ ہے، کہ عام حالات میں چونکہ دعاوں کا محل نماز کا آخری حصہ ہے اور اسی اثناء میں درود کا حکم دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ آخری قعدہ میں درود پڑھنا چاہیے۔ میرے نزدیک زیادہ احتیاط والا مسلک یہی ہے کہ قعدہ اخیرہ میں درود شریف کو واجب قرار دیا جائے۔ حضرت عمر، ابن عمر، ابن مسعود، جابر بن زید رضی اللہ عنہم ، شعبی، محمد بن کعب قرضی، ابو جعفر، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق، ابن اعواز s  وجوب کے قائل ہیں، قاضی ابن العربی نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ دوسری طرف بہت سے اہلِ علم عدمِ وجوب کے قائل ہیں کہ درود کے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ ان کے دلائل اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن احتیاطی مذہب وجوب کا ہی معلوم ہوتاہے۔

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! مرعاۃ المفاتیح (۱/ ۶۷۴ تا ۶۷۶) اور ’’فتح الباری‘‘(۱۱/ ۱۶۴)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:587

محدث فتویٰ

تبصرے