سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(666) کیا تشہد میں انگلی اٹھانا مسنون ہے؟

  • 24676
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 733

سوال

(666) کیا تشہد میں انگلی اٹھانا مسنون ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تشہد میں انگلی اٹھانا کیسا ہے ؟ اور کس لفظ پر اٹھائی جائے، اٹھانے کی کیفیت کیا ہے اور کب تک اٹھائی جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تشہد میں انگلی اٹھانا مسنون ہے۔حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے:

’ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلوٰةِ، وَضَعَ یَدَیهِ عَلٰی رُکبَتَیهِ، وَ رَفَعَ اِصبَعَهُ الیُمنٰی الَّتِی تَلِی الاِبهَامَ، یَدعُو بِهَا ‘صحیح مسلم،بَابُ صِفَةِ الْجُلُوسِ فِی الصَّلَاةِ، وَکَیْفِیَّةِ …الخ ،رقم:۵۸۰

یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں( جب، تشہد میں) بیٹھتے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی داہنی انگلی جو انگوٹھے کے ساتھ ملتی ہے، اٹھا کر اس کے ساتھ دعا کرتے۔

صاحب ’’عون المعبود‘‘، ’’مرقاۃ‘‘ سے نقل کرتے ہیں:

’ أَن یَتَشَهَّدَ بِهَا، وَ اَن یَستَمِرَّ عَلَی الرَّفعِ إِلٰی آخِرِ التَّشَهُّدِ  ‘ (۳۷۵/۱)

 یعنی تشہد کے اخیر تک انگلی اٹھائے رکھنی چاہیے۔

ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں بسندِ صحیح یوں ہے۔

’ کَانَ یُحَرِّكُ اِصبَعَهُ یَدعُوا بِهَا  ‘سنن النسائی،بَابُ مَوْضِعِ الْیَمِینِ مِنَ الشِّمَالِ فِی الصَّلَاةِ،رقم:۸۸۹

 یعنی ’’آپ انگلی کو حرکت دیتے رہتے۔ اس کے ساتھ دعا کرتے۔‘‘

علامہ البانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے، کہ سلام تک بالاستمرار (مسلسل) انگلی کا اشارہ اورحرکت جاری رہنی چاہیے، کیونکہ اس سے پہلے دعاہے ۔ امام مالک  رحمہ اللہ  وغیرہ کا مسلک یہی ہے اور جہاں تک تعلق ہے بعد از اشارہ انگلی رکھنے کا یا نفی اور اثبات یعنی :’اَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا  اللّٰهَ‘ پڑھنے کے وقت سے، اسے ’’مقید‘‘ کرنے کا، تو یہ سنت سے ثابت نہیں۔ بلکہ اس حدیث کی دلالت کی بناء پر فعل ہذا سنت کے مخالف ہے۔ صفۃ صلوۃ النبیﷺ،طبع۳،ص:۱۳۶

بیہقی کی جس روایت سے فقہائے شافعیہ نے دلیل لی ہے، کہ اشارہ ’’لا الٰہ الا اﷲ‘‘ پر کرنا چاہیے۔ پھر بعد میں صاحب ’’سُبُلُ السَّلام‘‘ نے بھی یہی کچھ بیان کیا ہے ۔ اس کے دو جواب ہیں۔

اولاً: اس حدیث میں قطعاً اس بات کی صراحت نہیں کہ اشارہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ پر ہونا چاہیے۔

ثانیاً: یہ ہے کہ خفاف بن ایماء سے بیان کرنے والا راوی مجہول ہے۔ بناء بریں یہ حدیث ضعیف ہے۔

سنن ابو داؤد وغیرہ کی جس روایت میں انگلی کے حرکت نہ کرنے کا ذکر ہے، وہ قابلِ حجت نہیں۔ کیونکہ یہ روایت شاذ ہے یا منکر، ملاحظہ ہو! تحقیق المشکوٰۃ للالبانی(۶۴۴/۱)

جہاں تک کیفیت کا تعلق ہے۔ سو اس بارے میں صحیح مسلم میں ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  جب تشہد پڑھنے کو بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے، اور اپنا بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے، اور اپنی سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے، اور اپنا انگوٹھا اپنی درمیانی انگلی کے اوپر رکھتے۔ صحیح مسلم،بَابُ صِفَۃِ الْجُلُوسِ فِی الصَّلَاۃِ، وَکَیْفِیَّۃِ …الخ ،رقم:۵۷۹

 سنن ابوداؤد کی روایت میں حلقہ بنانے کا ذکر بھی ہے۔ انگوٹھا اور درمیانی انگلی کو ملا کر حلقہ بناتے۔(سنن أبی داؤد،بَابُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الصَّلَاۃِ،رقم:۷۲۶) جس طرح کہ بعض روایات میں (۵۳) کی گرہ کا بھی تذکرہ ہے۔(صحیح مسلم،بَابُ صِفَۃِ الْجُلُوسِ فِی الصَّلَاۃِ، وَکَیْفِیَّۃِ …الخ ،رقم:۵۸۰) جس کی صورت یہ ہے، کہ انگوٹھے کو مسبحہ انگلی کے نیچے چوڑائی میں کردیا جائے۔ اور صحیح مسلم میں دائیں ہاتھ کی تمام انگلیوں کے قبضہ اور سبابہ سے اشارہ کا حکم ہے۔(صحیح مسلم،بَابُ صِفَۃِ الْجُلُوسِ فِی الصَّلَاۃِ، وَکَیْفِیَّۃِ …الخ ،رقم:۵۸۰) نیز ایک روایت میں انگلی کی طرفِ نگاہ رکھنے کا بھی ذکر ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! عون المعبود،(۳۶۱/۱)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:569

محدث فتویٰ

تبصرے