سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(639) سجدوں میں رفع الیدین

  • 24649
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2156

سوال

(639) سجدوں میں رفع الیدین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علامہ البانی نے اپنی کتاب ’’صفۃ الصلوٰۃ‘‘ میں چار مزید جگہوں میں رفعِ یدین کرنے کو سنت کہا ہے۔ یعنی سجدہ میں جاتے وقت، سجدے سے سر اٹھاتے وقت ، دوسرا سجدہ کرتے وقت اور پھر دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے وقت، اور ساتھ ہی حدیث کی مختلف کتابوں سے حوالے دیئے ہیں اور ان حدیثوں کو صحیح بھی کہا ہے ۔البانی صاحب کا موقف عام اہلِ حدیث کے موقف سے ہٹا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ اس بارے میں سائل کی تشفی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بحالتِ سجود جمہور اہلِ علم رفعِ یدین کے قائل نہیں۔ ان کا اعتماد ابن عمر، علی بن ابی طالب اور ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہم  سے مروی روایات پر ہے۔ ان روایات کو یہ مزیت (خصوصیت) حاصل ہے کہ ان کی نسبت صحیحین کی طرف ہے۔ اربابِ فن کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ اعلی ترین درجہ متفق علیہ روایت کا ہے۔

جب کہ إثبات کی بیشتر روایات متکلم فیہ ہیں۔ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں:

’’ وَهٰذِهِ الأَحَادِیثُ ضَعَّفَهَا الجَمهُورُ وَ عَلَّلُوهَا ‘‘ (۵۵۰/۱)

یعنی’اثبات کی روایات کو جمہور نے ضعیف اور معلول قرار دیا ہے۔

مزیدرقمطراز ہیں:

’وَالحَقُّ فِی ذٰلِكَ مَا ذَهَبَ إِلَیهِ الجَمهُورُ، لِأَنَّ أَحَادِیثَ النَّفیِ صَحِیحَةٌ صَرِیحَةٌ فِی النَّفیِ، بِخِلَافِ أَحَادِیثِ الاِثبَاتِ فَإِنَّهَا مَعلُولَةٌ، وَ بَعضُهَا غَیرُ صَرِیحًةٍ فِی الاِثبَاتِ۔ وَ لَو سُلِّمَ صِحَّتُهَا ، وَ لِکَونِهَا صَرِیحًةً فَحَدِیثُ ابنِ عُمَرَ، وَ مَن وَافَقَهُ أَولٰی أَن یُّعمَلَ بِهٖ، لِکَونِهٖ أَصَحُّ ، وَ أَقوٰی ، وَ أَرجَحُ ، وَ أَصرَحُ‘

 یعنی اس بارے میں حق بات وہ ہے جسے جمہور نے اختیار کیا ہے، کیونکہ نفی کی حدیثیں نفی میں صحیح صریح ہیں بخلاف اثبات کے وہ معلول ہیں۔ بعض اثبات میں غیر صریح ہیں اور بفرضِ صحت اور صراحت بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کی حدیث اولیٰ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ کیونکہ یہ زیادہ صحیح، زیادہ راجح، اور زیادہ واضح ہے۔

علاّمہ شوکافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ وَهٰذِهِ الأَحَادِیثُ لَا تَنهَضُ لِلاِحتِجَاجِ بِهَا عَلَی الرَّفعِ فِی غَیرِ تِلكَ المَوَاطِنِ۔ فَالوَاجِبُ البَقَاءُ عَلَی النَّفیِ الثَّابِتِ فِی الصَّحِیحَینِ، حَتّٰی یَقُومَ دَلِیلٌ صَحِیحٌ یَقتَضِی تَخصِیصَهٗ ، کَمَا قَامَ فِی الرَّفعِ عِندَ القِیَامِ مِنَ التَّشَهُّدِ الأَوسَطِ ‘نیل الأوطار(۱۸۸/۱) طبع حلبی

’’اور یہ احادیث اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے معروف مواقعِ رفع کے علاوہ پر استدلال کیا جائے۔ پس لازم یہی ہے کہ’’بخاری و’’ مسلم میں مذکور رفع یدین کی نفی کو ہی باقی چھوڑ دیا جائے۔ یہاں تک کہ کوئی دلیل صحیح قائم ہو جائے۔ جیسے دو رکعت میں تشہد پڑھ کر اٹھنے کے وقت رفع یدین پر صحیح دلیل قائم ہو گئی ہے۔

دوسری طرف کچھ اہلِ علم سجدہ میں رفعِ یدین کے استحباب کے قائل ہیں۔ ان کا اعتماد چند ایک آثار و اقوال کے علاوہ بعض مرفوع روایات پر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  ’’فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں:

’وَ أَصَحُّ مَا وَقَفتُ عَلَیهِ مِنَ  الاَحَادِیثِ فِی الرَّفعِ فِی السَّجُودِ، مَا رَوَاهُ النَّسَائِیُّ مِن رِوَایَةِ سَعِیدِ بنِ اَبِی عَرُوبَةَ، عَن قَتَادَةَ، عَن نَصرِ بنِ عَاصِمٍ، عَن مَالِكِ بنِ الحُویرِثِ أَنَّهٗ رَأَی النَّبِیَّ ﷺ یَرفَعُ یَدَیهِ فِی صَلَاتِهٖ إِذَا رَکَعَ، وَ اِذَا رَفَعَ رَأسَهٗ مِنَ رُکُوعِهٖ، وَ إِذَا سَجَدَ، وَ اِذَا رَفَع رَأسَهٗ مِن سَجُودِهٖ حَتّٰی یُحَاذِی بِهِمَا فُرُوعُ اُذُنَیهِ۔ وَ قَد اَخرَجَ مُسلِمٌ بِهٰذَا الاَسنَادِ طَرَفَهُ الأَخِیرَ، کَمَا ذَکَرنَاهُ فِی أَوَّلِ البَابِ الَّذِی قَبلَ هَذَا ، وَ لَم یَتَفَرَّد بِهٖ سَعِیدٌ۔ فَقَد تَابَعَهٗ هَمَّامٌ، عَن قَتَادَةَ عِندَ أَبِی عَوَانَةَ فِی صَحِیحِهِ‘ (اِنتَهٰی)

اس پر نقد و تبصرہ کرتے ہوئے صاحب ’’عون المعبود‘‘ رقمطراز ہیں:

’ فَظَهَرَ مِن قَولِ الحَافِظِ هٰذَٰا أَنَّ حَدِیثَ النَّسَائِیِّ مِن طَرِیقِ سَعِید بنِ أَبِی عَرُوبَةَ، عَن نَصرِ بنِ عَاصِمٍ، عَن مَالِكِ بنِ الحُوَیرِثِ صَحِیحُ الاِسنَادِ۔ فَقَد قَامَ دَلِیلٌ صَحِیحٌ عَلَی الرَّفعِ فِی السَّجُودِ فَیَجِبُ القَولُ بِهٖ قُلتُ: لَا یَستَلزِمُ مِن صِحَّةِ إِسنَادِهٖ صِحَّتُهٗ کَیفَ؟ وَ قَد رَوَی البُخَارِیُّ فِی صَحِیحِهٖ حَدِیثَ مَالِكِ بنِ الحُوَیرِثِ مِن طَرِیقِ خَالِدٍ، عن أَبِی قَتَادَةَ۔ وَ لَیسَ فِیهِ زِیَادَةٌ، وَ إِذَا سَجَدَ ، وَ إِذَا رَفَع رَأسَهٗ مِنَ السُّجُودِ۔ وَ رَوَاهُ مُسلِمٌ مِن طَرِیقِ أَبِی عَوَانَةَ، عَن قَتَادَةَ، عَن نَصرِ بنِ عَاصِمٍ ، وَ لَیسَ فِیهِ تِلكَ الزِّیَادَةُ۔ وَ کَذَا رَوَاهُ أَبُودَاؤدُ، وَ ابنُ مَاجَةَ ، وَالدَّارِمِیُّ، وَالدَّارُقُطَنِیُّ، وَالبُخَارِیُّ فِی ’جُزء رَفعِ الیَدَینِ ‘ وَ لَم یَذکُر أَحَدٌ مِن هٰؤلَاءِ تِلكَ الزِّیَادَةَ (۲۷/۱)

پھر ’’فتح الباری‘‘ سے بحوالہ ’’جزء رفع الیدین‘‘ نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی مرفوع روایت میں ہے:

’ وَ لَا یَرفَعُ یَدَیهِ فِی شَیئٍ مِن صَلَاتِهٖ، وَهُوَ قَاعِدٌ۔ وَ أَشَارَ إِلَی تَضعِیفِ مَا وَرَدَ فِی ذٰلِكَ ‘

مسئلہ ہذا پر ہمارے مربی اوّل شیخ مجتہد العصر محدث روپڑی رحمہ اللہ  نے نہایت محققانہ، محدثانہ، فقیہانہ انداز میں گفتگو فرمائی ہے۔ بحث اگرچہ طویل ہے لیکن فوائد و ثمرات سے بھر پور اور علمی ترقی و اضافہ کی موجب ہے۔ لہٰذا بعینہٖ ان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔

سجدہ میں رفع یدین کی احادیث شبہ سے خالی نہیں۔ جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

اصولِ حدیث میں لکھا ہے کہ اگر کوئی محدث ’’إِسنَادُہٗ صَحِیحٌ  ‘‘کہے تو اس سے صحتِ حدیث ثابت نہیں ہوتی۔ہاں اگر ’’إِسنَادُہٗ صَحِیحٌ ‘‘  کہہ کر اس کے بعد کوئی جرح ذکر نہ کرے، تو یہ صحت حدیث پر دلالت ہوگی، کیونکہ اگر کوئی جرح ہوتی تو وہ سکوت نہ کرتا۔

’’الفیہ‘‘ عراقی میں ہے:

أَلحُکمُ لِلاِسنَادِ بِالصِّحَّةِ أَو

بِالحَسَنِ دُونَ الحُکمِ لِلمَتنِ رَأَو

وَ أَقبَلَهٗ أَن یُطلِقَهٗ مَن یَّعتَمِدُ

وَ لَم یُعَقِّبهُ بِضُعفٍ یُنتَقَدُ

یعنی اسناد کے صحیح یا حسن ہونے کا حکم متن کے صحیح یا حسن ہونے کو نہیں چاہتا۔ ہاں (مُعتَمَدعَلَیہِ مُحَدِّث)اسناد پر صحیح یا حسن ہونے کا حکم کرے اور اس کے بعد کوئی ضعف بیان نہ کرے جس سے متن کی تنقید ہو، تو اس صورت میں متن بھی صحیح ہو گا۔

اس عبارت کا مطلب اگرچہ بعض نے اتنا ہی بیان کیا ہے، مگر اصل یہ ہے کہ اس عبارت سے دو باتیں مفہوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ متن پر صحت یا حسن کا حکم لگانا یہ حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کا کم درجہ ہے، کیونکہ اسناد پر حکم لگانے کی صورت میں یہ احتمال رہتا ہے کہ شاید اس میں شذو ذ یا علت وغیرہ ہو۔ (شذوذ کا مطلب ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ کی یا کئی ثقوں کی مخالفت کرے اور علتِ پوشیدہ، عیب کو کہتے ہیں جس پر ہر ایک مطلع نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بڑے بڑے محدثین مطلع ہو تے ہیں) گویا اس احتمال کی بناء پر یہ حکم لگانے سے حدیث کی صحت یا حسن اس درجہ کی نہیں سمجھی جاتی، جس درجہ کی متن پر حکم لگانے سے سمجھی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ کمتر درجہ معتبر ہے، لیکن اس شرط پر کہ اسناد پر صحت یا حسن کا حکم لگانے کے بعد محدث سکوت کرے اور اس میں شذوذ و علت وغیرہ بیان نہ کرے۔ جو ضعف حدیث کا باعث ہو۔ یہ مطلب ’’مقدمہ ابن صلاح‘‘ کی عبارت سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے۔ ’’مقدمہ ابن صلاح‘‘ کی نوع ثانیہ :۱۶ میں ہے:

’ قَولُهُم هٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الاِسنَادِ، أَو حَسَنُ الاِسنَادِ دُونَ قَولِهِم هٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ، أَو حَدِیثٌ حَسَنٌ، لِأَنَّهٗ قَد یُقَالُ: هٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الاِسنَادِ ، وَ لَا یَصِحُّ، لِکَونِهٖ شَاذًا، أَو مُعَلَّلًا غَیرَ أَنَّ المُصَنَّفَ المُعتَمَدَ مِنهُم، إِذَا اقتَصَرَ عَلٰی قَولِهٖ: إِنَّهٗ صَحِیحُ الاِسنَادِ، وَ لَم یَذکُر لَهٗ عِلَّةً ، وَ لَم یَقدَح فِیهِ۔ فَالظَّاهِرُ مِنهُ الحُکمُ لَهٗ، بِأَنَّهٗ صَحِیحٌ فِی نَفسِهٖ، لِأَنَّ عَدمَ العِلَّةِ  ، وَالقَدحِ ، هُوَ الأَصلُ ، وَالظَّاهِرُ (وَاللّٰهُ أَعلَمُ) ۔‘

یعنی محدثین کا یہ کہنا کہ یہ حدیث ’’صَحِیحُ الاِسنَادِ‘‘ یا ’’حَسَنُ الاِسنَادِ‘‘ ہے۔ یہ ان کے اس قول سے کم درجہ ہے کہ ’’یہ حدیث صحیح ہے‘‘ یا ’’یہ حدیث حسن ہے‘‘۔ کیونکہ بعض دفعہ کہا جاتا ہے: کہ یہ حدیث صَحِیحُ الاِسنَادِ ہے اور درحقیقت بوجہِ ’’شاذ‘‘ یا ’’معلل‘‘ ہونے کے حدیث صحیح نہیں ہوتی۔ ہاں معتمد مصنف ’’صَحِیحُ الاِسنَادِ‘‘ کہہ کر کوئی علت اور عیب ذکر نہ کرے، تو ظاہر یہی ہے کہ اس کا یہ حکم حدیث کی صحت کی بابت ہے۔ کیونکہ اصل اور ظاہر یہی ہے کہ کوئی علت اور عیب نہیں۔ ورنہ وہ ذکر کرتا ہے۔

اس عبارت سے اوپر کی دونوں باتیں اچھی طرح واضح ہو گئیں۔ کیونکہ اسناد پر ’’صحت‘‘ یا ’’حسن‘‘ کے حکم لگانے کی بابت کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حدیث صحیح ہے اور جب براہ راست حدیث پر ’’صحت‘‘ یا ’’حسن‘‘ کا حکم لگایا جائے تو یہ حدیث کے’’ صحیح‘‘ یا ’’حسن‘‘ ہونے کی تنصیص اور تصریح ہے اور ظاہر کا درجہ تنصیص سے کم ہے۔ کیونکہ ظاہر میں کچھ احتمال رہتا ہے۔ جیسے یہاں احتمال ہے کہ شاید شذوذ وغیرہ کا کوئی احتمال ہو۔ بر خلاف تنصیص اور تصریح کے کہ اس میں اس قسم کی گنجائش نہیں۔ا ور باوجود درجہ کم ہونے کے ظاہر پر بالاتفاق عمل ہوتا ہے۔ صرف اتنی بات ہے کہ جب ظاہر کا اور تنصیص کا مقابلہ ہو جائے، تو پھر ظاہر پر عمل نہیں رہتا۔ جیسے ’’صَحِیحُ الاِسنَادِ‘‘کہنے سے۔ اگرچہ صحتِ حدیث ظاہر ہوتی ہے، لیکن جب ’’صَحِیحُ الاِسنَادِ‘‘کہنے کے بعد محدِّث کسی عیب کی تنصیص اور تصریح کردے، تو پھر اس تنصیص اور تصریح پر عمل ہو گا۔ ظاہر پر عمل نہیں ہو گا۔ یعنی یہ حدیث صحیح نہیں سمجھی جائے گی۔ اگر یہ تنصیص اور تصریح نہ ہو تو پھر ظاہر پر عمل ہو گا۔ یعنی حدیث صحیح سمجھی جائے گی ۔ یہ تو ایک عام قاعدہ کا بیان تھا۔ اب اس اسناد کا حال سنیے، جس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  وغیرہ نے صحیح کہا ہے:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’طبقات المدلسین‘‘(ص:۲) میں مدلسین کے پانچ مراتب ذکر کیے ہیں۔ (مدلس اس راوی کو کہتے ہیں، جو اپنے ملاقاتی سے ایسے صیغہ کے ساتھ روایت کرے، جس سے سماع کا وہم ہو مگر سنا نہ ہو۔ جیسے کہے قال فلان بن فلان) ان میں سے تیسرے مرتبہ کی بابت فرماتے ہیں:

’ اَالثَّالِثةُ مَن أَکثرَ مِنَ التَّدلِیسِ، فَلَم یَحتَجَّ الأئِمَّةُ مِن أَحَادِیثِهِم إِلَّا بِمَا صَرَّحُوا فِیهِ بِالسِّمَاعِ، وَ مِنهُم مَّن قَبِلَهُم ، کَأَبِی الزُّبَیرِ المَکِّیِّ۔ ‘ (إِنتَهٰی)

 یعنی تیسرے مرتبہ کے وہ لوگ ہیں جو تدلیس بہت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی احادیث سے ائمہ نے استدلال نہیں پکڑا۔ مگر جن روایتوں میں انھوں نے سماع کی تصریح کی ہے وہ لائق استدلال ہیں اور بعض محدثین نے ان کی احادیث کو مطلق رد کر دیا ہے، خواہ سماع کی تصریح کریں یا نہ۔ جبکہ بعض محدثین نے مطلقاً قبول کر لیا ہے۔

اس کے بعد آگے چل کر اس مرتبہ کے پچاس آدمی بتلائے ہیں۔ جن میں سے ایک قتادہ کو بھی شمار کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’ قَتَادَةُ بنُ دِعَامَةَ السُّدُوسِی، البَصَرِی، صَاحِبُ أَنَسِ بنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ، کَانَ حَافِظَ عَصرِهِ ، وَهُوَ مَشهُورٌ بِالتَّدلِیسِ، وَ صَفَهُ بِهِ النَّسَائِی، وَغَیرُهٗ۔‘ طبقات المدلسین،ص:۱۸۰

یعنی ’’قتادہ بن دعامۃ سدوسی حضرت انس رضی اللہ عنہ  کے شاگرد اپنے زمانہ کے حافظ ہیں، اور وہ تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں۔امام نسائی وغیرہ نے ان کو مدلس کہا ہے۔‘‘

اب یہاں دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے قتادہ کی تدلیس کا اعتبار نہ کیا ہو اور اس کی حدیث کو مطلقاً قبول کرتے ہوئے ’’اِسنَادُہٗ صَحِیحٌ‘‘ کہہ کر سکوت کیا۔ جس سے اوپر کے قاعدہ کے مطابق یہ حدیث ادنیٰ درجہ کی صحیح ہوگئی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ قتادہ چونکہ تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں۔ اس لیے ’’اِسنَادُہٗ صَحِیحٌ‘‘ کے بعد اس بات کے ذکر کی ضرورت نہ سمجھی کہ اس میں قتادہ مدلس ہیں۔ کیونکہ شہرت بمنزلۂ ذکر کے ہے۔ پس اس صورت میں حدیث ضعیف ہو گی۔ میرے خیال میں اس صورت کو ترجیح ہے کیونکہ جب ائمہ حدیث تیسرے مرتبہ والوں کی احادیث کو لائقِ استدلال نہیں سمجھتے، تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  سے ان کی مخالفت بعید ہے اور امام ابو داؤد کا اس کو اپنی کتاب میں لانا اس کی صحت کی دلیل نہیں۔ کیونکہ وہ ایسی ضعیف احادیث بھی لے آتے ہیں،جو تائید کے قابل ہوں اور اگر بالفرض دوسری صورت کو ترجیح نہ ہو تو بھی معاملہ مشکوک رہا۔ کیونکہ احتمال ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’ إِسنَادُہٗ صَحِیحٌ‘‘ پر شہرت کی بناء پر سکوت کیا ہو اور احتمال ہے کہ تدلیس کا اعتبار نہ کرتے ہوئے سکوت کیا ہو ۔ بہر صورت حافظ ابن حجر کے ’’ إِسنَادُہٗ صَحِیحٌ‘‘ کہنے سے اس حدیث کو صحیح سمجھنا دوہری غلطی ہے اور ابن سید الناس کے کلام کو بھی اسی پر قیاس کر لیں۔ بلکہ ابن سید الناس نے ’’وَرِجَالُہٗ ثِقَاتٌ ‘‘ کہہ کر ’’’ إِسنَادُہٗ صَحِیحٌ‘‘کی تفسیر کردی ہے۔ یعنی ’’ إِسنَادُہٗ صَحِیحٌ‘‘سے مراد یہ ہے کہ راوی ثقہ ہیں اور قتادہ اگرچہ مدلس ہیں، لیکن ثقہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور ’’فتح البیان‘‘ اور ’’عون المعبود‘‘ کی عبارت کا بھی یہی مطلب ہے ۔ا ور اگر کچھ اور ہے تو ان کی غلطی ہے اور امام شوکانی کے سکوت کی وجہ بھی شہرت ہے۔ یعنی قتادہ کی تدلیس مشہور ہے۔ اس لیے کچھ کلام نہیں کیا۔ جب اس حدیث کی صحت میں شبہ رہا جس کی نسبت ’’ إِسنَادُہٗ صَحِیحٌ‘‘ صراحۃً کہا گیا ہے۔ تو سجدہ میں رفع یدین کی حدیث کی نسبت کس طرح تسلی ہو سکتی ہے۔ رہی یہ بات کہ شعبہ کی روایت اعمش، ابی اسحاق اور قتادہ سے سماع پر محمول ہے۔ سو اس کی نسبت عرض ہے کہ اعمش اور ابی اسحاق سے تو خواہ سماع پر محمول ہو، مگر شعبہ کی روایت کا سماع پر محمول ہونا مشکوک ہے، جس کی وجہ مندرجہ ذیل ہے۔

’’طبقات المدلسین‘‘کی عبارت جو مولوی عبد الرحمن صاحب مرحوم نے ’’تحفۃ الأحوذی‘‘میں نقل کی ہے وہ پوری اس طرح ہے:

’ وَقَالَ البَیهَقِیُّ فِی ’المَعرِفَة‘: رَوَینَا عَن شُعبَةَ قَالَ: کُنتُ أَتفَقَّدُ  فَمَ قَتَادَةَ، فَإِذَا قَالَ: حَدَّثَنَا، وَ سَمِعتُ، حَفِظتُهُ۔ وَ إِذَا قَالَ: حَدَّثَ فُلَانٌ، تَرَکتُهٗ۔ قَالَ: وَ رَوَینَا عَن شُعبَةَ أَنَّهٗ قَالَ: کَفَیتُکُم تَدلِیسَ ثَلَاثَةٍ: الأَعمَشِ ، وَ أَبِی إِسحَاق ، وَ قَتَادَةَ(قُلتُ) فَهٰذِهٖ قَاعِدَةٌ جَیِّدَةٌ …الخ‘طبقات المدلسین،ص:۲۱

یعنی بیہقی نے معرفہ میں کہا ہے کہ ہم نے شعبہ سے روایت کی۔ فرماتے تھے: کہ جب قتادہ حدیث سناتے، تو میں ان کے منہ کی طرف خیال رکھتا۔ جب حَدَّثَنَا  اور ’’سَمِعتُ‘‘ کہتے تو میں یاد کر لیتا اور جب ’’حَدَّثَ ‘‘کہتے، تو میں چھوڑ دیتا۔ نیز بیہقی نے کہا کہ ہم نے شعبہ سے روایت کیا ، فرماتے تھے: میں نے تین کی تدلیس سے تمہاری کفایت کی۔ اعمش ،ابواسحاق اور قتادہ۔ میں(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ) کہتا ہوں: یہ عمدہ قاعدہ ہے۔ ان تینوں سے جب کوئی روایت شعبہ کے واسطہ سے آئے، تو وہ سماع پر دلالت کرے گی ۔ خواہ ’’ عَن ‘‘ ہی کے ساتھ روایت ہو۔

اس عبارت کے پہلے حصہ میں ہے کہ شعبہ نے قتادہ سے وہی روایتیں لیں ہیں، جن میں سماع کی تصریح ہے۔ باقی چھوڑ دی ہیں۔ تو اب ’’عَن‘‘ والی روایت شعبہ سے آہی نہیں سکتی، تو اس کے سماع پر محمول ہونے کے کیا معنی؟ اور اس صورت میں قتادہ کی تدلیس کی کفایت کرنے سے شعبہ کا یہ مطلب ہو گا، کہ جب قتادہ کا کوئی دوسرا شاگرد ایسے صیغہ کے ساتھ روایت کرے جس میں سماع کی تصریح نہ ہو تو وہ روایت میرے پاس لاؤ۔ میں اس کی تمیز کردوں گا، کہ وہ سماع والی ہے یا نہیں۔ کیوںکہ میں اس کی بڑی جستجو رکھتا تھا۔

پس یہ عبارت اس بات کی دلیل ہوئی کہ یہ ’’عن‘‘ والی روایت شعبہ کی نہیں۔ بلکہ کسی راوی کی غلطی سے شعبہ کی طرف نسبت ہو گئی ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے، کہ مالک بن حویرث راوی حدیث کا اپنا عمل اس حدیث پر نہیں، کیوںکہ وہ صرف رکوع کو جاتے، اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ جیسے مسلم باب استحباب رفع الیدین… الخ میں اور بخاری باب رفع الیدین …الخ میں ہے۔ ہاں اگر تدلیس کی کفایت کرنے سے شعبہ کا مطلب یہ لیا جائے، کہ جن روایتوں میں قتادہ نے سماع کی تصریح نہیں کی ان کی بابت بعد کو شعبہ نے قتادہ سے تحقیقات کرکے ’’سماع‘‘ والی اور ’’غیر سماع‘‘ والی کے درمیان تمیز کرلی اور روایت کرنے کے وقت اسی لفظ سے روایت کیں، جس لفظ کے ساتھ سنی تھیں۔جو ’’سماع‘‘ کے لفظ کے ساتھ سنیں۔ وہ ’’سماع‘‘ کے لفظ کے ساتھ روایت کیں اور جو ’’عن‘‘ وغیرہ کے ساتھ سنیں وہ ’’عن‘‘ وغیرہ کے ساتھ روایت کیں تو اس وقت بے شک حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کا قاعدہ کہ شعبہ کی روایت ان تینوں سے سماع پر محمول ہے درست ہو گا اوراس قاعدہ کی بناء پر رفع یدین کی حدیث صحیح ہو گی۔ لیکن شعبہ کے مطلوب میں چونکہ شبہ پڑ گیا ہے، اس لیے تسلی پوری طرح نہیں ۔کیوں کہ اِذَا جَائَ الاِحتِمَالُ بَطَلَ الاِستِدلَالُ ‘

اس کے علاوہ مالک بن حویرث کا صرف دو جگہ رفع یدین بتلا رہا ہے، کہ سجدہ کی رفع یدین کوئی مستقل رفع یدین نہیں، بلکہ یہ وہی ہے جو سجدہ کو جاتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ رکھے اور اٹھائے جاتے ہیں۔ کیونکہ احادیث کے مطابق دونوں ہتھیلیاں سجدہ میں کبھی کندھوں کے برابر، کبھی منہ کے دونوں طرف رکھی جاتی ہیں اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ساتھ اٹھائی جاتی ہیں۔ا س کی شکل و صورت بظاہر رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی سی بن جاتی ہے۔ اس لیے راوی نے کبھی صورت و شکل کا لحاظ کرتے ہوئے رکوع کے رفع یدین کے ساتھ اس کا بھی ذکر کردیا اور کبھی یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ رکوع کا مستقل رفع یدین ہے۔ یہ کوئی الگ رفع یدین نہیں، اس کا ذکر چھوڑ دیا اور عبد اﷲ بن عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم  وغیرہ کی احادیث میں جو وارد ہے، کہ رسول اﷲﷺ سجدہ میں رفع یدین نہیں کرتے تھے، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ یعنی انھوں نے بھی اس کے مستقل نہ ہونے کی وجہ سے نفی کردی ہے۔ آپ نے ان احادیث کو معارض بتایا ہے حالانکہ یہ مؤید ہیں۔ پھر آپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ عدمِِ رؤیت اثباتِ رؤیت کے منافی نہیں، کیونکہ یہاں عدمِ رؤیت اور اثباتِ رؤیت کا مقابلہ نہیں، بلکہ رؤیتِ عدم اور رؤیتِ اثبات کا مقابلہ ہے۔ یعنی جن روایتوں میں ذکر ہے کہ رسول اﷲﷺ سجدہ میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے کئی روایتوں میں رؤیت کی تصریح ہے ۔ ملاحظہ ہو! مسلم: باب مذکورہ اور بخاری باب إلی أین یرفع یَدَیہِ فتأمل فیہ!( اس سے ایک شبہ اور اس کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔ شبہ یہ ہے کہ یہاں عدمِِ رؤیت اور اثباتِ رؤیت کہنا صحیح ہے۔ کیونکہ جو فعل ایک نے دیکھا۔ دوسرے نے نہیں دیکھا۔ مثلاً مالک بن حویرث نے رسول اﷲﷺ کو سجدہ میں رفع یدین کرتے دیکھا اور عبد اﷲ بن عمررضی اللہ عنہما نے نہیں دیکھا۔ اس طرح سے ایک طرف عدمِ رؤیت ہو گئی اور دوسری طرف اثبات رؤیت ہو گئی۔ جواب اس کا یہ کہنا اس وقت صحیح ہو سکتا ہے ،جب ایک صحابی کہتا ہے، کہ میں نے رفع یدین کرتے دیکھا، دوسرا کہتا کہ میں نے نہیں دیکھا، یا اس کے ذکر سے سکوت کرتا۔ احادیث میں اس طرح نہیں، بلکہ ایک میں ہے کہ کرتے دیکھا۔ دوسری میں ہے نہ کرتے دیکھا۔ (بس مقابلہ رؤیتِ اثبات اور رؤیتِ عدم میں ہوا، نہ کہ عدمِ رؤیت اور اثباتِ رؤیت میں۔)

اور سندھی کا اس طرح سے تطبیق کرنا کہ آنحضرتﷺسجدہ کی رفع یدین کبھی کرتے، کبھی نہ کرتے۔ یہ اس وقت مناسب ہے، جب سجدہ کی رفع یدین مستقل طور پر ثابت ہو جائے، مگر جب ثبوت ہی مشکوک ہے تو اس کی ضرورت ہی کیا ؟ اس کے علاوہ ہم کہتے ہیں کہ عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما  وغیرہ کی حدیث میں رکوع میں رفع یدین کا اثبات ہے، اور سجدہ میں نفی ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب لیں کہ رسول اﷲﷺ سجدہ میں کبھی چھوڑ دیتے تھے اور راوی نے جیسا دیکھا اسے بیان کردیا۔ تو اس پر سوال ہو گا، کہ رسول اﷲﷺ نے سجدہ میں کیوں چھوڑا؟ کیا جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا ،یا بھول کر چھوڑا یا منسوخ ہونے کی وجہ سے چھوڑا؟ بلاوجہ بھول کی نسبت آپﷺ کی طرف غیر مناسب ہے۔ نیز بھول میں آپﷺکی اقتداء نہیں ہوتی ۔ تو گویا مطلب یہ ہوا کہ سجدہ میں ہمیشہ ’’رفع الیدین‘‘ کرنا چاہیے۔حالانکہ سندھی کی یہ مراد نہیں۔ اس طرح نسخ کی صورت کو سمجھ لینا چاہیے کیونکہ نسخ کی صورت میں لازم آئے گا کہ سجدہ میں بالکل نہ کرنا چاہیے۔ حالانکہ سندھی کی یہ بھی مراد نہیں۔ اب رہی پہلی صورت یعنی جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا ۔ سو اس کی بابت عرض ہے کہ سجدہ میں جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا ہے تو رکوع میں نہ چھوڑنے کا مطلب عدمِ جواز ہو گا۔ یعنی رکوع میں چھوڑنا جائز نہیں ہو گا۔ حالانکہ سندھی کی یہ مراد بھی بعید ہے۔ کیونکہ نسائی کتاب ’’الافتتاح‘‘ کی پہلی حدیث پر سندھی نے رکوع میں بھی ترکِ جواز تسلیم کیا ہے۔

پھر یہاں پر ایک اور دوہرا اعتراض پڑتا ہے۔ وہ یہ کہ اثبات اور نفی دونوں قسم کی احادیث میں استمرار کا صیغہ ہے، جو ہمیشگی کو چاہتا ہے۔ تو اب اس طرح سے موافقت نہیں ہو سکتی کہ کبھی کرتے۔ کبھی نہ کرتے، بلکہ اس کی صورت یہی ہے کہ سجدہ میں رفع یدین سے مراد مستقل رفع یدین نہیں، بلکہ رفع یدین والی وہی شکل و صورت ہے۔ فتأمل فیہ!( اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہاںدونوں طرف اگرچہ ہمیشگی اور استمرار کے صیغہ ہیں، لیکن موافقت کے لیے تاویل کا کوئی حرج نہیں۔ وہ یوں کہ جب چند دن ایک شخص نے ایک حالت دیکھی، تو یہ خیال کرکے کہ باقی دنوں میں بھی اسی طرح کرتے ہوں گے۔ استمرار کا صیغہ استعمال کردیا کیونکہ اصل یہ ہے کہ حکم قائم رہے اور اس کا بدلنا ایک موہوم شے ہے۔ پس یہ تیسرا اعتراض ٹھیک نہیں۔ ہاں پہلے دو اعتراض ٹھیک ہیں۔ ایک یہ کہ جب مستقل رفع یدین کا ثبوت ہی مشکوک ہے تو پھر اس موافقت کی ضرورت کیا؟ دوسرا یہ کہ اس سے لازم آتا ہے کہ رکوع کے رفع یدین کا ترک ناجائز ہو۔ فافھم!)

رہی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  کی حدیث جس کو آپ نے اصل قرار دیا ہے۔ اس میں عبد الوارث بن سعید بے شک ہمام سے زیادہ ثقہ ہے۔ لیکن ہمام کو خارج سے تقویت بہت ہے۔ عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما   وغیرہ کی متفق علیہ احادیث جن میں سجدہ میں رفع یدین کی نفی ہے۔ اس کے شواہد ہیں۔ پھر ’’شرح نخبہ‘‘ میں صحت کے چند درجے مقرر کیے ہیں: اول نمبر: بخاری، مسلم کی روایات۔ پھر صرف بخاری کی۔ پھر صرف مسلم کی۔ پھر جو’’بخاری و’’ مسلم کی شرط پر ہوں۔ پھر جو صرف بخاری کی شرط پر ہوں۔ پھر جو مسلم کی شرط پر ہوں  اور  اس روایت کو مسلم نے بھی روایت کیا ہے، لیکن اس میں سجدہ میں رفع یدین نہیں۔

پس اس جہت سے بھی اس روایت کو تقویت ہو گئی۔ پھر عبد الجبار بن وائل کے استاد میں اختلاف ہے۔ عبید اﷲ بن عمر بن مسیرہ جو اعلیٰ درجہ کے ثقہ ہیں، جن کی بابت تقریب میں ’’ثقہ ثبت‘‘ لکھا ہے۔ یہ عبد الوارث سے وائل بن علقمہ نقل کرتے ہیں اور ابو خیثمہ  زہیر بن حرب بھی اس اعلیٰ درجہ کے ثقہ ہیں۔ وہ بھی عبد الوارث سے بواسطہ عبد الصمد بن عبد الوارث،وائل بن علقمہ ہی نقل کرتے ہیں اور ابراہیم بن الحجاح سامی جس کو تقریب میں’’ثقہ یَھِمُ قلیلاً‘‘ کہا ہے۔یعنی ثقہ ہے، کچھ وہم کرتا ہے ۔اور عمران بن موسیٰ، ابو عمرو البصری جس کو تقریب میں ’’صدوق‘‘ کہا ہے۔ یہ دونوں عبد الوارث سے علقمہ بن وائل نقل کرتے ہیں اور صحیح یہی ہے۔ چنانچہ ’’تہذیب‘‘ میں اور ’’تقریب‘‘ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس کی تصریح کی ہے۔ اب دیکھیے عبید اﷲ اور ابو خیثمہ اعلیٰ درجہ کے ثقہ ہیں۔دونوں کی بابت ’’تقریب‘‘ میں ’’ثقہ ثبت‘‘ لکھا ہے اور ابراہیم اور عمران یہ ان کی نسبت بہت ہلکے درجہ کے ہیں، کیونکہ دوسرے کو تو صرف سچا کہا ہے، اس کے حافظہ وغیرہ کی تعریف نہیں کی اور پہلے کے لیے جامع لفظ بولا ہے، جو حافظہ وغیرہ کو بھی شامل ہے، لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے، کہ وہ کچھ وہم کرتا ہے۔ مگر باوجود اس کے عبد الجبار بن وائل کے استاد کی نسبت انہی کا قول درست ہے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ ان کے قول کو خارج سے تقویت پہنچ گئی ہے۔ وہ یوں کہ عفان بن مسلم بصری نے ہمام بن یحییٰ بصری سے علقمہ بن وائل نقل کیا ہے۔ اس طرح کے بعض اور خارجی قرائن بھی ہیں، جو عبد الجبار کا استاد علقمہ بن وائل ہونے کے متقاضی ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ زیادہ ثقہ کی بات کو ہمیشہ ترجیح ہوا کرے۔ بلکہ بعض خارجی شواہد ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیتے ہیں، اور اسی کی بات درست ہوتی ہے۔ پس اس بناء پر ہمام کی روایت کو ترجیح ہونی چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ امام مسلم، ہمام کی روایات اپنی کتاب میں لائے ہیں اور عبد الوارث کی نہیں لائے۔ ملاحظہ ہو! باب وضع یدہ الیمنیٰ الخ، پس جس روایت کو آپ نے اصل خیال کیا تھا، وہ محل استدلال میں فرع بھی نہ رہی۔ اس کے علاوہ مالک بن الحویرث کی حدیث میں سجدہ میںرفع یدین سے مراد مستقل رفع یدین مراد نہ ہو، تواس میں بھی وہی مراد لینا چاہیے۔ تاکہ سب احادیث میں موافقت ہوجائے، اور کسی قسم کا اختلاف نہ رہے۔(عبد اﷲ امرتسری مقیم روپڑ ضلع انبالہ، ۳۰ صفر ۱۳۵۳ھ، ۲۴مئی ۱۹۳۵،ماخوذ از فتاویٰ اہلحدیث (۱۲۶/۲تا۱۳۴)

اور علامہ البانی محدث العصر رحمہ اللہ نے زیرِبحث مسئلہ پر کتاب ’’صفة الصلوٰۃ‘‘ کے علاوہ اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’إرواء الغلیل‘‘(۶۷/۲۔۶۸) پر بھی اجمالاً بحث کی ہے۔ اس سلسلہ میںوارد بعض احادیث و آثار و اقوال پر صحت کا حکم لگایا ہے، جن پر اکثر و بیشتر مناقشہ حضرت الاستاذ محدث روپڑی کے سلسلۂ کلام میں گزر چکا ہے ۔ اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں۔

پھر علامہ موصوف کا اس بارے میں نظریہ یہ ہے، کہ سجود میں رفع الیدین بالإستمرار نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً ہے۔ عملاً بندہ نے اپنی مدنی زندگی میں بار ہا موصوف کو نماز پڑھتے دیکھا، بلکہ صف بندی میں آپ کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع میسر آیا۔

موصوف کو سجود میں رفع یدین پر عامل نہیں پایا۔ اس سے بھی اس موقف کو تائید حاصل ہوتی ہے، کہ اصلاً سجود میں رفع یدین کا مسلک کمزور ہے اور عدمِ رفع کا مسلک پختہ ہے اور یہی راجح ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:544

محدث فتویٰ

تبصرے