سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(625) نماز میں کلام کی حرمت کا حکم مدینہ میں آیا

  • 24635
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 551

سوال

(625) نماز میں کلام کی حرمت کا حکم مدینہ میں آیا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے نماز کم پڑھائی۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم  کے بتانے پر مکمل کی اور سجدۂ سہو کیا۔ شروع میں نماز میں بات چیت کرلیتے ۔ سلام کا جوب بھی دیا جاتا لیکن آیت ﴿حَافِظُوا عَلَی الصَّلٰوات﴾ الخ اُترنے پر بات چیت بند ہو گئی کس طرح پتہ چلا کہ آپﷺ نے یہ نماز صحابہ کے بتانے پر اس آیت مبارکہ کے نازل ہونے سے پہلے مکمل کرکے سجدۂ سہو کیا تھا یا بعد میں کیونکہ احناف کا کہنا یہ ہے کہ اب بات چیت کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے جب کہ اہلِ حدیث اس حدیث پر عمل کر رہے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات واضح ہے کہ نمازمیں خاموشی کی روایت کے راوی زید ہیں اور آیت میں ﴿وَ قُومُوا لِلّٰهِ قَانِتِین﴾ بالاتفاق مدنی ہے۔ اس سے معلوم ہوا، کہ نماز میں کلام کی حرمت کا حکم مدینہ میں آیا، لیکن کب آیا؟ اس بارے میں روایات میں تصریح موجود ہے، کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما  کی حبشہ سے ان کی آمد اس وقت ہوئی، جب آپ ’’معرکۂ بدر‘‘ کی تیاری میں مصروف تھے اوراُس وقت نماز میں کلام کی حرمت نازل ہو چکی تھی۔ لیکن ’’قصہ ذوالیدین‘‘ بہت بعد کا ہے۔ کیونکہ روایت میں تصریح موجود ہے، کہ اس نماز میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  بھی شریک تھے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کی آمد سن سات ہجری بموقعہ ’’خیبر‘‘ ہوئی ہے جب کہ جنگِ بدر سن دو ہجری میں ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا، کہ مسئلہ ہذا میں اہلِ حدیث کا مسلک راجح ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:539

محدث فتویٰ

تبصرے