سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(590) سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟

  • 24600
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2667

سوال

(590) سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صحیح ابوداود از علامہ البانی  رحمہ اللہ  میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدہ میں جاتے وقت اونٹ کی طرح بیٹھنے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکہو۔ یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے،جبکہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  کی حدیث جو ابوداود، نسائی اور ترمذی وغیرہ میں موجود ہے، اس میں ارشاد یہ ہے کہ’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا،جب آپ سجدہ کرتے تو دونوں گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب سجدہ کے بعد اُٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اُٹھاتے ۔‘‘

علماء اہلحدیث دونوں احادیث کو صحیح کہتے ہیں مگر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی روایت اسناد کے لحاظ سے زیادہ قوی اور عمدہ ہے لہٰذا اسی کو ترجیح ہے۔ اختلاف کی بات یہ ہے کہ رفع الیدین رسول اللہ ﷺ کے آخری عمل سے ثابت ہے جس کا ثبوت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  کی صحیح حدیث ہے۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  ۹ ہجری کے موسم سرما میں مسلمان ہوئے ، جب آپ رضی اللہ عنہ ۱۰ہجری میں دوبارہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے رسول اللہ ﷺ کو رفع الیدین کرتے دیکھا لہٰذا رفع الیدین کی ناسخ وہی روایت ہو سکتی ہے جو وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  کے دور کے بعد کی ہواور ایسا ممکن نہیں۔اسی بات کو اگر اس طرح کہا جائے کہ سجدہ کو جاتے وقت ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھنا، وائل بن حجر  رحمہ اللہ  کی حدیث کی وجہ سے رسولِ کریمﷺ کا آخری عمل ہونا ثابت ہوگیا لہٰذا ترجیح آخری عمل کو ہے اور پچھلا حکم منسوخ ہوگیا اور اس عمل کی ناسخ حدیث اس دور کے بعد کی ہونی چاہئے جو کہ ممکن نہیں۔ کیا اہلحدیث اس کے یکسر خلاف عمل نہیں کرتے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ مسئلہ میں صحیح موقف یہ ہے کہ وائل بن حجر کی روایت ضعیف ہے جس کو ابوداود، نسائی اور ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند شریک بن عبداللہ قاضی کی وجہ سے ضعیف ہے، ہمام رحمہ اللہ  نے بھی ان کی متابعت کی ہے مگر اُنہوں نے اس حدیث کو موصول کی بجائے مرسل روایت کہا ہے۔ حازمی نے مرسل ہی کو محفوظ کہا ہے، ہمام سے اس حدیث کی ایک دوسری سند بھی ہے مگر وہ منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ :۳۲۹،۳۳۰/۲ اور إرواء الغلیل:۷۵،۳۵/۲)

اس حدیث کی ایک تیسری سند (سنن کبریٰ بیہقی:۹۹/۲) میں ہے اور وہ بھی سخت ضعیف ہے۔ اس میں درج ذیل علتیں ہیں:

۱۔         راوی محمد بن حجر کے بارے میں امام بخاری نے کہا :فیہ نظر( تاریخ کبیر :۶۹/۱) ’’اس میں کلام ہے۔‘‘

۲۔        راوی سعید بن عبدالجبار کو ابن حجر رضی اللہ عنہ  نے تقریب میں ضعیف کہا ہے۔

اُمّ عبدالجبار کے بارے میں تہذیب التہذیب میں عبدالجبار بن وائل کے ترجمہ میں ہے کہ اس نے اپنے والدین سے سنا نہیں، اگر یہ بات صحیح ہے کہ اس نے اپنے باپ کی طرح اپنی والدہ سے بھی نہیں سنا تو اس سند میں چوتہی علت انقطاع ہے تو مشارالیہ سند اصل میں یوں ہے :

محمد بن حجر ثنا سعید بن عبدالجبار عن عبدالجبار بن وائل عن اُمہ عن وائل بن حجر

اور جہاں تک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا تعلق ہے، وہ صحیح ہے۔اس کو ابوداود، نسائی، احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے کہا:

‘‘یہ حدیث صحیح یا حسن لذاتہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔‘‘ تحفۃ الاحوذی:۲۲۹/۱

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ راجح اور قوی مسلک یہی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی گھٹنوں کی بجائے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر ٹکائے، اس مختصر بحث سے وہ تمام توجیہات جو صورتِ سوال میں ذکر کی گئی ہیں، کالعدم ہوجاتی ہیں۔جملہ تفصیل کے لئے تحفۃ الاحوذی اور إرواء الغلیل ملاحظہ ہو۔ اس سلسلے میں تفصیلی مضمون کیلئے دیکھئے:نماز میں سجدے میں جانے کی کیفیت از مولانا منیر قمر سیالکوٹی شائع شدہ ماہنامہ ’’محدث‘‘لاہور:ج:۳۱ عدد۲ بابت فروری ۱۹۹۹ء ...صفحہ:۸تا۲۳ سیریل نمبر۲۲۳۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:522

محدث فتویٰ

تبصرے