سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عورت کا سونا اور ریشم کا کپڑاپہننا

  • 246
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 745

سوال

عورت کا سونا اور ریشم کا کپڑاپہننا

سوال:    السلام علیکم     کیا عورت سونا اور ریشم کا کپڑاپہن سکتی ہے؟

جواب: شیخ صالح المنجد نے اس بارے ایک سوال کا جواب یوں دیا ہے:
سوال: ہمارے ہاں بعض عورتيں شامى محدث علامہ محمد ناصر الدين البانى رحمہ اللہ كے فتوى سے شك ميں پڑ چكى ہيں، علامہ صاحب نے اپنى كتاب " آداب الزفاف " ميں فتوى ديا ہے كہ عورت كے ليے عمومى طور پر سونے كے حلقے پہننا حرام ہيں۔اور بالفعل كچھ عورتيں سونا پہننے سے رك گئى ہيں، اور وہ سونے پہننے والى عورتوں كو گمراہ اور گمراہ كرنے والياں شمار كرنے لگي ہيں، لہذا خاص كر سونے كے حلقے پہننے ميں آپ كا بيان كيا ہے، كيونكہ ہميں اس كى بہت زيادہ ضرورت ہے، اس سلسلہ ميں آپ كا فتوى اور دليل كيا ہے، كيونكہ معاملہ بہت آگے جا چكا ہے، اللہ تعالى آپ كو بخشے اور آپ كے علم ميں اضافہ فرمائے۔
الحمد للہ:
عورتوں كے ليے سونا پہننا جائز ہے، چاہے وہ حلقے كى شكل ميں ہو يا دوسرى شكل ميں اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
﴿ كيا جو زيورات ميں پليں، اور جھگڑے ميں ( اپنى بات ) واضح نہ كر سكيں ﴾الزخرف ( 18 )۔
اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے زيور پہننا عورتوں كى صفت بيان كى ہے، اور يہ سونا وغيرہ ميں عام ہے، اور اس ليے بھى كہ امام احمد اور ابو داود اور نسائى رحمہم اللہ نے جيد سند كے ساتھ امير المومنين على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلا شبہ ميرى امت كے مردوں پر يہ دونوں حرام ہيں "
اور ابن ماجہ كى روايت ميں يہ الفاظ زائد ہيں:
" اور ان كى عورتوں كے ليے حلال ہيں "
اور اس ليے بھى كہ امام احمد، اما ترمذى، امام نسائى، ابو داود، حاكم، طبرانى رحمہ اللہ نے ابو موسى اشعرى رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرى امت كى عورتوں كے ليے سونا اور ريشم حلال كى گئى ہے، اور ميرى امت كے مردوں پر حرام ہے "
اسے ترمذى، حاكم، ابو داود، اور ابن حزم نے صحيح قرار ديا ہے۔
اور اسے معلول قرار ديتے ہوئے كہا گيا ہے كہ سعيد بن ابى ھند اور ابو موسى كے درميان انقطاع ہے، ليكن اس كى كوئى قابل اطمنان دليل نہيں ملتى، اوپر ہم اس كو صحيح قرار دينے والے علماء كرام كا بيان كر چكے ہيں۔
اور بالفرض اگر مذكورہ علت صحيح بھى مان لى جائے تو پھر اس كى كمى دوسرى صحيح احاديث كے ساتھ پورى ہو جائيگى، جيسا كہ آئمہ حديث كے ہاں معروف قاعدہ اور اصول يہى ہے۔
اس بنا پر سلف علماء كرام نے عورت كے ليے سونا پہننا جائز قرار ديا ہے، اور بعض نے اس پر اجماع بھى نقل كيا ہے، چنانچہ ہم اس كى اور زيادہ وضاحت كے ليے ذيل ميں كچھ علماء كے اقوال درج كرتے ہيں:
جصاص رحمہ اللہ سونے پر كلام كرتے ہوئے اپنى تفسير ميں كہتے ہيں:
" عورتوں كے ليے سونے كى اباحت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام سے وارد شدہ اخبار ممانعت والى اخبار سے زيادہ ظاہر اور مشہور ہيں، اور آيت كى دلالت ( جصاص رحمہ اللہ اس سے وہ آيت مراد لے رہے ہيں جو ہم نے ابھى اوپر بيان كى ہے ) بھى عورتوں كے ليے سونے كے مباح ہونے ميں ظاہر ہے۔اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كے دور سے لے كر ہمارے دور تك بغير كسى نكارت كے آج تك عورتوں كا سونا پہننا چلا آ رہا ہے، اور كسى نے بھى ان پر اعتراض نہيں كيا، اور اس طرح كے مسئلہ ميں كسى خبر واحد كى بنا پر اعتراض نہيں كيا جا سكتا " اھـ
ديكھيں: تفسير الجصاص ( 3 / 388 )۔
اور الكيا الھراسى اپنى تفسير " تفسير القرآن " ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى كى تفسير كرتے ہوئے كہتے ہيں:
قولہ تعالى:
﴿ كيا جو زيورات ميں پليں، اور جھگڑے ميں ( اپنى بات ) واضح نہ كر سكيں ﴾الزخرف ( 18 )۔
اس ميں عورتوں كے ليے زيور پہننے كى اباحت كى دليل پائى جاتى ہے، اور اس پر اجماع منعقد ہے، اور اس كے متعلق اخبار كا كوئى شمار نہيں "
ديكھيں: تفسير القرآن الكيا الھراسى ( 4 / 391 )۔
اور سنن الكبرى ميں بيہقى رحمہ اللہ عورتوں كے ليے سونا اور ريشم حلال ہونے كى دليل ميں كچھ احاديث ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ احاديث و اخبار اور اس كے معنى ميں دوسرى احاديث عورتوں كے ليے سونے كے زيور پہننے كى اباحت پر دلالت كرتى ہيں، اور عورتوں كے ليے سونے كے زيور كى اباحت ميں ہمارا اجماع كا حصول كى دليل ان احاديث كے منسوخ ہونے پر دليل ہے جو خاص كر عورتوں كے ليے سونے كے زيور كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں " اھـ
ديكھيں: السنن الكبرى للبيہقى ( 4 / 142 )۔
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورتوں كے ليے ريشم پہننا، اور سونے و چاندى كے زيورات زيب پہننا بالاجماع اور صحيح احاديث كى بنا پر جائز ہيں " اھـ
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 442 )۔
اور ايك دوسرى جگہ پر لكھتے ہيں:
" مسلمانوں كا اجماع ہے كہ عورتوں كے ليے سونے اور چاندى كے زيورات كى ہر قسم جائز ہے، مثلا ہار، اور طوق، انگوٹھى، اور چوڑياں، اور كنگن، اور پازيب، اور ہر وہ جو گلے وغيرہ ميں پہنا جائے اور ہر وہ جو زيور وہ عادتا پہنتى ہيں، اس ميں كوئى اختلاف نہيں ہے " اھـ
ديكھيں: المجموع للنووى ( 6 / 40 )۔
اور صحيح مسلم كى شرح ميں
" باب فى تحريم خاتم الذھب على الرجال و نسخ ما كان من اباحتہ فى اول الاسلام "
كے عنوان يعنى ( مردوں پر سونے كى انگوٹھى كى حرمت اور ابتداء اسلام ميں جائز ہونے كے منسوخ ہونے كے بيان كے تحت لكھتے ہيں:
" عورتوں كے ليے سونے كى انگوٹھى كى اباحت پرمسلمانوں كا اجماع ہے " اھـ
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ براء رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں سات اشياء سے منع فرمايا: سونے كى انگوٹھى سے منع فرمايا، ...... "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا سونے كى انگوٹھى پہننے يا بنوانے سے منع كرنا مردوں كے ساتھ مخصوص ہے، عورتوں كے ليے منع نہيں، عورتوں كے ليے مباح ہونے پر اجماع منقول ہے " اھـ
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 317 )۔
عورتوں كے ليے حلقہ يا عام سونا حلال ہونے كى دليل ان مندرجہ بالا دونوں احاديث اور مذكورہ بالا علماء كرام نے جو اجماع بيان كيا ہے كے علاوہ درج ذيل احاديث بھى ہيں:
1 - ابو داود اور نسائى نے عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ كے طريق سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں كہ:
" ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور اس كے ساتھ اس كى بيٹى بھى تھى جس كى كلائى ميں سونے كے دو موٹے موٹے كنگن تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" كيا تم اس كى زكاۃ ادا كرتى ہو ؟ "تو اس نے جواب نفى ميں ديتے ہوئے كہنے لگى: نہيں۔
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تمہيں پسند ہے كہ اللہ تعالى قيامت كے روز تمہيں اس كى بدلے آگ كے دو كنگن پہنائے ؟
چنانچہ اس عورت نے وہ كنگن اتار كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دے ديے، اور كہنے لگى: يہ دونوں اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے ہيں "
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كے ليے مذكورہ سونے كے كنگن ميں زكاۃ كے وجوب كى وضاحت فرمائى، اور آپ نے اس كى بيٹى كے پہننے پر كوئى اعتراض نہيں كيا، تو يہ اس كى دليل ہے كہ يہ عورت كے ليے حلال ہے، حالانكہ يہ دونوں گول اور حلقہ كى شكل ميں تھے، اور يہ حديث صحيح ہے، اس كى سند جيد ہے جيسا كہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام ميں متنبہ كيا ہے۔
2 - سنن ابو داود ميں صحيح سند كے ساتھ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس نجاشى كى جانب سے بطور ہديہ سونے كے زيورات آئے جس ميں سونے كى ايك انگوٹھى بھى جس كا نگينہ حبشى تھا۔عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتی ہيں:تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے اعراض كرتے ہوئے ايك لكڑى يا اپنى انگلى كے ساتھ اسے پكڑا اور اپنى نواسى امامہ بنت ابو العاص اپنى بيٹى زينب كى بيٹى امامہ كو بلايا اور فرمانے لگے:ميرى بيٹى تم يہ پہن لو "۔
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى نواسى امامہ كو انگوٹھى دى، اور يہ انگوٹھى سونے كى ا ور گول تھى، اور آپ نے يہ بھى فرمايا: " اسے پہن لو "
تو يہ بالنص گول اور حلقہ كى شكل كے سونے كى حلت كى دليل ہے۔
3 - ابو داود اور دار قطنى نے ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:
" وہ سونے كا زيور پہنا كرتى تھيں، تو انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا يہ كنز يعنى خزانہ ہے ؟تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" جب تم اس كى زكاۃ ادا كرو تو يہ كنز اور خزانہ نہيں " اھـ
امام حاكم رحمہ اللہ نے بلوغ المرام ميں اسے صحيح قرار ديا ہے۔
اور وہ احاديث جن كا ظاہر عورتوں كے ليے سونے پہننے كى ممانعت كرتا ہے وہ شاذ ہيں، اور اپنے سے صحيح اور زيادہ ثابت شدہ احاديث كى مخالف ہيں، اور آئمہ حديث كا فيصلہ ہے كہ جو احاديث جيد سند كى ہوں ليكن وہ اپنے سے زيادہ صحيح احاديث كى مخالف ہوں اور ان كے مابين جمع كرنا بھى ممكن نہ ہو، اور نہ ہى ان كى تاريخ كا علم ہو سكے، تو وہ شاذ ہونگى، ان پر عمل نہيں كيا جائيگا۔
حافظ عراقى رحمہ اللہ " الالفيۃ " ميں كہتے ہيں:
" اور شذوذ والى جو ثقہ كى مخالفت كرے اس ميں ... شافعى نے يہى كہا ہے " اھـ
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ النخبۃ ميں لكھتے ہيں:
" اور اگر زيادہ راجح سے مخالفت كى جائے، تو وہ راجح محفوظ ہے اور اس كے مقابلہ ميں آنے والى شاذ ہے " اھـ
اسى طرح صحيح حديث جس پر عمل كيا جائے كى شروط ميں يہ بھى ہے كہ وہ شاذ نہ ہو، اور بلاشك و شبہ عورتوں كے ليے سونے كى حرمت ميں مروى احاديث كى اسانيد كو اگر كسى علت سے سليم بھى مان ليا جائے اور صحيح اور ان احاديث كے درميان جمع كرنا بھى ممكن نہ ہو جو عورتوں كے ليے سونے كى حلت پر دلالت كرتى ہيں اور ان كى تاريخ بھى معلوم نہ ہو تو اس شرعى اور متعبر قاعدہ اور اصول پر عمل كرتے ہوئے ان پر شاذ اورصحيح نہ ہونے كا حكم لگانا اہل علم كے ہاں ثابت ہے۔
اور ہمارے بھائى علامہ الشيخ محمد ناصر الدين البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " آداب الزفاف " ميں جو ذكر كيا ہے كہ عورتوں كے ليے سونے كى حرمت والى اور حلت والى احاديث كے مابين جمع يہ ہے كہ نہى والى احاديث كو محلق يعنى گول اشياء پر محمول كيا جائيگا اور حلت والى احاديث كو اس كے علاوہ دوسرے پر۔
ان كى يہ بات صحيح نہيں، اور صحيح احاديث ميں وارد شدہ حلت كے مطابق نہيں؛ كيونكہ اس ميں انگوٹھى حلال ہونے كى دليل ہے اور انگوٹھى محلق يعنى گول اور حلقہ كى شكل ہوتى ہے، اور كنگن كے حلال ہونے كى بھى صحيح حديث ميں دليل ہے اور يہ بھى محلق يعنى گول اور حلقہ كى شكل ميں ہيں۔
چنانچہ اس سے ہم نے جو بيان كيا ہے وہ ظاہر اور واضح ہوگيا؛ اور اس ليے بھے كہ حلت والى احاديث مطلق ہيں، مقيد نہيں، اس ليے انہيں اطلاق پر ہى ركھنا اور ان كى سند صحيح ہونے كى وجہ سے ان كے مطلق پر عمل كرنا ضرورى ہے، اور اس كى تائيد اہل علم كے اجماع سے بھى ہوتى ہے، جيسا كہ ہم ابھى اوپر بيان كر كے آئے ہيں كہ اہل علم كا اجماع ان حرمت والى احاديث كو منسوخ كر رہا ہے۔
بلا شك و شبہ يہ حق ہے، اور اس سے شبہ بھى زائل ہو جاتا ہے، اور شرعى حكم كى بھى وضاحت ہو جاتى ہے كہ امت كى عورتوں كے ليے سونا حلال ہے، اور مردوں كے ليے حرام۔
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، سب تعريفات رب العالمين كے ليے ہيں، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم، اور ا نكى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے۔
واللہ اعلم ۔

تبصرے