السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا والدین جیسی معزز ہستی کے لئے رکوع کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جائز نہیں بلکہ یہ شرک ہے کیونکہ رکوع عبادت اورسجدے کی طرح اللہ کے لئے ہے،ان دونوں فعلوں کو غیراللہ کے لئے کرنا جائز نہیں ۔ فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ :۳۳۶،۳۳۷/۱
جو اہل علم سجدئہ تعظیمی کو شرک قرار نہیں دیتے، سابقہ دلائل کی بنا پر ان کا موقف درست نہیں ۔ فاعل جب جملہ وضاحتوں کے حکم سے واقف ہو تو فیصلہ صرف ظاہرکی بنا پرہوگا، فاعل کی نیت اور اعتقاد کا اس میں کوئی دخل نہیں ۔
۲۔ سوال میں اشارہ کردہ جملہ اُمور شرک ہیں ۔ البتہ قومی ترانے وغیرہ کے بارے میں فتویٰ نمبر۲۱۲۳ میں ہے کہ قومی جھنڈا یا قومی سلام کی خاطر کھڑا ہونا منکر بدعات سے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ اور خلفاے راشدین کے عہد میں یہ شے موجود نہ تھی اور یہ کمالِ توحید کے وجوب کے منافی ہے اور مسلمانوں پر صر ف اللہ وحدہ لا شریک کی تعظیم واجب ہے ، اس لحاظ سے بھی یہ اس تعظیم کے منافی ہے۔ مزید برآں یہ شرک کی طرف بھی ایک ذریعہ ہے اور اس میں کفار کی مشابہت ہے۔ اور یہ قبیح عادات میں ان کی تقلید ہے جبکہ نبی ﷺنے ان کی مشابہت یا ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔( فتویٰ مندرجہ بر صفحہ ۳۳۵)
اساتذہ یا بڑے لوگوں کی خاطر قیام کرنا یا سلوٹ مارنا بھی ممنوع ہے، کیونکہ ’ خیرالھدی ھدی محمد ﷺ وشرالامور محدثاتھا‘ " صحیح البخاری،بَابُ الِاقْتِدَاء ِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،رقم:۷۲۷۷" ‘‘بہترین ہدایت محمد ﷺکی ہدایت ہے اور دین میں اختراعات بد ترین اُمور ہیں ۔‘‘
نبی ﷺجب تشریف لاتے تو صحابہ کرامؓ آپ کے لئے اُٹھتے نہ تھے، کیونکہ آپﷺ اس کو ناپسند فرماتے ہیں ۔ کسی مدرّس کو یہ لائق نہیں کہ طلبہ کو اپنی تعظیم کی خاطر قیام کا حکم دے اور طلبہ کے لئے بھی یہ لائق نہیں کہ جب اساتذہ کھڑا ہونے کا حکم کریں تو اس میں ان کی تعمیل کریں ۔ کیونکہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ۔ (فتویٰ بر صفحہ:۱۲۳۴)
۳۔ ایسا شخص شرکِ اکبر کا مرتکب ہے اوراس کا حکم پہلے گزر چکا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہمیں اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ سلف اسی بات کے قائل تھے۔ عرصہ ہوا مرکزی جمعیت اہلحدیث کی سرگودھا میں منعقد آل پاکستان کانفرنس میں یہ (مسئلہII) اُٹھا تھا اور علما کرام کا اختلاف طول پکڑ گیا تھا ، اسکے پیش نظر محدث روپڑی رحمہ اللہ نے اوپر درج شدہ فتویٰ تحریر فرمایا تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب